میں ذاتی حیثیت میں اس چیز کا قائل ہوں کہ فریق مخالف پر تنقید میں بھی سطحیت نہیں ہونی چاہیئے۔۔کیونکہ یہ بغض کا شاخسانہ ہوتی اختلاف کا نہیں۔۔!
جیسے علی وزیر کی یہ ٹویٹ۔۔! اب اگر کہا جائے کہ یہ کوئی بہت بڑا نقطہ ہے یا قومی ایشو ہے تو مے بی کوئی جواز بن جاتا لیکن ایک ذاتی حیثیت کی چیز کو ٹارگٹ کر کے بغض کا اظہار جو کہ ہے بھی غلط۔۔العجب
غلط کیسے۔۔؟ اسکا جواب علی وزیر اور اس کے عقل سے پیدل فالوورز کے لیے کہ۔۔!! سلیوٹ ایک فوجی چیز ہے اور اسکا فوجی طریقہ کار یعنی ایس او پیز بھی ہیں۔۔جن میں سے ایک یہ کہ ویپن کے ساتھ،ہتھیار کے ساتھ سلیوٹ نہیں ہوتا۔۔قانونی سلیوٹ بھی نہیں ہوتا یہ تو پھر اعزازی ہے۔۔یعنی اگر کسی جگہ پر کوئی جوان ڈیپلائے(ویپن کے ساتھ) ہے اور کوئی سینئیر آفیسر بھی آتا تو اس کو سلیوٹ نہیں کیا جائے گا۔
حتی کہ، حتی کہ پریڈ میں بھی ویپن کے ساتھ سلیوٹ نہیں ہوتا، 23مارچ کی پریڈ تو بچہ بچہ دیکھتا ان بغضیوں کو اس سے بھی سمجھ نہیں آئی۔۔ پریڈ میں بھی فلائٹس جب گزرتیں تو وہ صرف خالی سر کو ٹرن کرتی ہیں جب مارچ پاس ہوتا،پھر جنرل سلامی میں بھی سب سے اگے جو بغیر ویپن کے کھڑا ہوتا وہی سلیوٹ کرتا باقی پوری پریڈ سلام فنگ(ویپن سامنے) کرتی۔۔اس کے علاوہ اگر کوئی اکیلا فوجی پریڈ کر رہا تو وہ بھی ویپن کے ساتھ سلیوٹ نہیں کرے گا بلکہ بٹ(بندوق کا دستہ) سلیوٹ کرے گا(صرف پریڈ میں) یعنی بٹ پر ہاتھ مارے گا۔۔۔ تو یہ بات کرسٹل کلیئر سمجھ لی جائے کہ ویپن ہاتھ میں ہو تو ایس او پی کے مطابق قانونی سلیوٹ بھی نہیں ہوتا چہ جائیکہ اعزازی۔
لہٰذا بغض الٹنے سے پہلے اتنی عقل ضرور استعمال کر لیا کریں کہ جواب میں لعنتیں ای نہ ملیں اس بغض بھرے انتہائی لیول کے غیر معقول اور سطحی اعتراض پر۔

0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔