تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
جمعہ، 31 جنوری، 2020

کرونا وائرس، بیماری یا جنگ ؛ ماسٹر محمد فہیم امتیاز



میرے نزدیک یہ کرونا وائرس بائیولوجیکل ڈیسیز سے کہیں زیادہ اکنامک وار کا شاخسانہ ہے۔ دو باتیں ہیں پہلی چائنہ جو اپنی معاشی و تجارتی پالیسیوں کی بدولت مستقبل قریب کی ابھرتی ہوئی سوپر پاور کے طور پر سامنے آ رہا ہے اس میں سب سے بڑا رول اس کی برآمدات کا ہے چائنہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ مزید او بی او آر(One Belt One Road Initiative) پروگرام کے تحت چائنہ نے 65 ممالک ، 4.4 بلین لوگوں اور دنیا کے 40 فیصد جی ڈی پی کو انگیج کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہمارا سی پیک بھی ہے، امریکہ کو یہ بات بڑی واضح ہے کہ چائنہ معاشی طور پر جیسے جیسے اپنے پنجے گاڑتا جا رہا امریکہ ویسے ویسے اپنا بگ باس کا عہدہ کھوتا جا رہا ہے، اگر امریکہ اپنا عالمی اثرو رسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے تو اسے ہر حال میں چائنہ کو روکنا ہوگا گزشتہ دنوں ہی امریکہ نے چائنہ کی ہوآوے کمپنی کو زیر کرنے کے لیے انڈرائیڈ کا سہارا لیا تھا کہ شاید چائنہ اس پر مجبوراً امریکہ سے مفاہمت کی بھیک مانگے گا لیکن چائنہ نے انتہائی سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا سسٹم لانچ کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہاں قابل ذکر بات یہ بھی کہ امریکی معیشت اسکی کرنسی ڈالر کے ساتھ منسوب ہے جو کہ گلوبل کرنسی کے طور پر رائج اور اکنامک ویب سائٹ دی بیلنس پر اگست 2019 کو شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ "چائنہ اپنی کرنسی یوآن کو ڈالر سے ری پلیس کر کے گلوبل کرنسی کے طور پر متعارف کروانا چاہتا ہے۔ سی این بی سی پر ڈونلڈ ٹرمپ کی 5 اگست 2019 کی ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا کہ امریکہ نے چائنہ کو کرنسی مینوپلیٹر ڈکلیئر کر دیا ہے یہ کہتے ہوئے کہ چائنہ تجارت میں ان فئیر ایڈوانٹیج کے لیے اپنی کرنسی یوآن کو استعمال کر رہا ہے۔

چائنہ کا دن بدن بڑھتا ہوا معاشی اثرو رسوخ آمریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، اس پر "Is China A Threat to U.S Economy" کے ٹائٹل سے 63 صفحات پر مشتمل ایک مفصل رپورٹ اس حوالے سے موجود ہے۔ اس خطرے کو ٹالنے کے لیے ضروری ہےکہ کسی طرح چائنہ کی معیشت کے آگے بند باندھا جائے جس میں سب سے اہم چائنیز ایکسپورٹ کو روکنا ہے۔ ان معاملات کے تناظر میں اگر کرونا کیس کو سٹڈی کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چائنہ میں پھیلنے والے کرونا وائرس کی خبروں کو انتہائی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس سے متعلق ایک خبر کو تین ممالک سے 16000 مرتبہ پھیلایا گیا جبکہ وہ خبر فیک تھی غلط تھی۔ کرونا وائرس سے زیادہ اس کا خوف ہراس چائنہ پر بہت بری طرح سے اثر انداز ہوا، جس کی وجہ سے بین الاقوامی پروازیں منسوخ ہو گئیں، درامدات برآمدات روک دی گئیں، لاکھوں پبلک پلیسز کو بند کر دیا گیا، چائنہ کو کرونا وائرس کا یہ خوف و ہراس اس سہ ماہی میں 60 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا چکا۔ یہ بات انتہائی واضح ہے کہ اپنے سب سے بڑے حریف چائنہ کو گھٹنوں پر لانے کے لیے امریکہ کو اسے اکنامکلی ہی ڈیمج کرنا ہوگا۔

دوسری بات ، امریکی ڈاکٹرز/سائنٹسٹ کا کرونا وائرس کا علاج دریافت کرنے سے متعلق کہ اگر میرا تجزیہ درست ہے اور یہ وائرس امریکہ چائنہ ٹریڈ وار کا ہی حصہ ہے تو امریکہ جنگوں کا سوداگر ہے، جنگوں کے سوداگر کو بیماری کی سوداگری یعنی ایک تیر سے دو شکار(چائنہ کو معاشی لحاظ سے زک پہنچانا اور علاج بیچ کر پیسا کمانا) ملتے ہیں تو امریکہ کی فطرت ایسی نہیں کہ وہ ذرا بھی تامل کرے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

صفحات

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
 
فوٹر کھولیں