اپنا اپنا طریقہ کار ہوتا کام کا، میں گزشتہ کچھ عرصے سے اینٹی سٹیٹ، دین بیزار اور دیگر مخالفین کو لسٹ میں ایڈ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، اور میں زیادہ میوچل بھی رکھنے کا قائل نہیں، نئے لوگ اور مخالف نظریے کے لوگوں کو ایڈ کرنے اور ان سے انٹریکشن کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔
جیسے کچھ دن پہلے ایک بندے کے متعلق ڈسکس ہو رہا تھا تو میں نے کہا یار میں انگیج کر لیتا اس کو ایک ٹیم ممبر نے کہا سر جی وہ تو ایسا۔۔ وہ تو ویسا۔۔۔ اب آپ اس سے بات کریں گے۔۔
میں نے اسے جواب دیا کہ میں تو منظور پشتین سے لے کر عاطف توقیر تک سے ملنے کو تیار ۔۔!!
کہ جب آپ کسی نظریے پر بائے چوائس کھڑے ہوں، کنسیپچول کھڑے ہوں، اپنے نظریات پر کنسیپٹس پر کانفیڈنٹ ہوں۔۔ تو آپ دور کھڑے تنقید در تنقید، طنز و تشنیع اور گالیاں دینے کے بجائے مکالمے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔! آپ پر اعتماد طریقے سے اگلے بندے کو بات کرنے کی سمجھنے اور سمجھانے کی دعوت دیتے ہیں، اور پھر اگر آپ فوری نفرت کے بجائے اختلاف کے قائل ہوں تو پھر تو سونے پر سہاگہ۔۔۔!
دو تین چیزیں ہوتیں اس میں۔۔
اگر تو آپ درست تو اسے سمجھا کر درست ٹریک پر لا سکتے، جو مس کنسیپشنز(الگ ٹاپک) ہوتیں وہ صحت مند مکالمے سے کافی حد تک کلیئر ہو جاتیں۔۔!
اگر آپ میں کوئی غلطی تو سامنے والے بندے کی بات سمجھ کر آپ اپنی اصلاح کر لیتے(توثیقی تعصب کی مکالمے میں گنجائش نہیں ہوتی، جو بندہ گنجائش رکھنا اور سپیس دینا جانتا وہی نظریات میں تغیر و تبدل کا باعث بننے کی اہلیت رکھتا)!
تیسری چیز اگر سامنے والا انہیں میں ہو جن پر مہر لگ چکی ہو تو بھی آپکو اسے قریب سے جاننے بلکہ اندر تک گھس کر جاننے کا موقع ملتا۔ (رد کے لیے یہ چیز بہت ضروری) ہوتی۔۔!
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔