تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
اتوار، 10 جون، 2018

مسکراہٹ - ماسٹر محمد فہیم امتیاز

زندگی میں ایسی مسکراہٹ نہیں دیکھی ایسا احساس جو چہروں کو جگما دے

گاڑی میں ہوں لاہور جا رہا ہوں

راستے میں ایک 4×4 سنگل کیبن فوجی گاڑی کو بائی پاس کیا جس میں چھ سات جوان بیٹھے تھے دو تین پشتون بھی تھے تقریباً سبھی کے چہرے پر خشخشی داڑھی اور تیکھی نوک والی مونچھیں تھی ایک دو نے بلیک ہیٹ پہنی ہوئی تھی ایک ہاتھ میں رائفل G-3 پکڑے دوسرے ہاتھ سے ایک دوسرے کو چھیڑتے تنگ کرتے ہاتھ پر ہاتھ مارتے گپ شپ کرتے جا رہے تھے

جیسے ہی  گاڑی قریب پہنچی آدھے سے زیادہ افراد نے جو اس طرف متوجہ تھے چہرے پر ایک رشک آمیز مسکراہٹ سجائے محبت بھری نگاہوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا بچے شیشوں کے ساتھ چمٹ کر ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کرنے لگے  میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھی ایک خاتون کی گود میں موجود بچے نے کلکاری مارتے ہوئے دونوں ہاتھ اٹھا کر گاڈی کی طرف لپکنے کی کوشش کی

گاڈی میں موجود فوجی جوانوں نے تشکر آمیز نگاہوں کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اشارے سے پرجوش انداز میں سلام کا جواب دیا  ان کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ تھی جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں اْس مسکراہٹ سے کہیں بڑھ کر
جو سسی کے چہرے پر پنوں کو دیکھنے سے آتی ہو گی
جو ہیر کے تصور سے رانجھے کا چہرہ سجاتی ہوگی
جو دِلی مراد اچانک سے بر آنے پر چھاتی ہوگی
شاید یہ تقابل ہی ممکن نہیں کیونکہ یہ مسکراہٹ وجود کے حاصل کی نہیں یہ وصالِ صنم کے تصور کی نہیں یہ تو منبعِ عقیدت تھی

گاڑی کب سے گزر گئی، میں یہ تحریر بھی لکھ چکا مگر ابھی تک سوچے جا رہا ہوں یہ کیسا احساس تھا،یہ کیسی عقیدت ہے،یہ کیسے جذبات ہیں،وہ کیسی مسکراہٹ تھی

اور خود سے کہہ رہا ہوں: ماسٹرا۔۔۔! تو جو بھی بن جائے دانشوڈ یا دانشگرد ہو جائے مگر کبھی اس مسکراہٹ کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا ہاں وہ ایسی ہی مسکراہٹ تھی💓💓


0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

صفحات

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
 
فوٹر کھولیں