زور کا نعرہ لگا تھا نعرہ فاروقی "یا عمر" سفید شلوار قمیض میں ملبوس وہ چار لوگ تھے ان میں ایک نے "یاعلی" بھی کہا تھا۔۔ اس نعرے کے ساتھ ہی پٹرول سے بھری کانچ کی آٹھ بوتلیں جن کے منہ پر آگ لگی ہوئی تھی انہوں نے جلوس میں مختلف سمتوں میں اچھال دی جن میں سے ایک "علم" کی طرف ایک ذولجناح کے پاوں میں پھینکی گئی تھی جس پر ذولجناح بپھر کر دوڑ پڑا تھا اور سیاہ لباس میں ملبوس مجمعے میں افراتفری پھیل گئی تھی بوتلیں گر کر ٹوٹی اور دھماکے سے سارا تیل پھیلا جس نے فوراً آگ پکڑ لی صرف اتنا ہی نہیں ان چار میں سے ایک نے سیاہ علم نکالا کہیں سے جس پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین رضی اللہ و تعالیٰ عنہ کا نام لکھا تھا۔۔اس سفید پوش نے وہ علم نعوذباللہ ثمہ نعوذباللہ زمین پر پھینکا اور روندتے ہوئے نکل گئے استغفرُللہ۔۔۔۔۔!! لوگوں نے ان سفید پوشوں کو پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ دوڑتے ہوئے گلیوں میں غائب ہو گئے۔۔۔جلوس دوبارہ اکٹھا ہونا شروع ہوگیا تھا ذولجناح کو واپس لایا گیا علم کو اٹھا کر چوم کر سینے سے لگایا گیا سارے جلوس میں غم و غصے کی لہر تھی۔۔ایک ایک بندہ چیخ چلا رہا تھا مرنے مارنے کی باتیں کر رہا تھا وہی کھڑے کھڑے چند جوشیلے نوجوانوں نے ڈنڈے،کچھ نے چاقو اور ایک دو نے پستول نکالے اور سڑک کی دوسری طرف موجود مسجد کی طرف غصے سے دوڑے جس کے باہر "جامع مسجد اہلسنت والجماعت" لکھا ہوا تھا۔۔ایک دم ایک گرجدار آواز آئی رک جاو جلوس میں سے ایک باریش وبارعب بزرگو نے حکم دیا۔۔۔لڑکے بادل ناخواستہ واپس آ گئے جلوس کے تمام بڑے غلام حیدر بابا کے ارد گرد اکٹھے ہو چکے تھے جوانوں کو سختی سے تنبیہ کر دی گئی تھی کہ کوئی غلط قدم نہیں اٹھائے گا۔۔تمام لڑکے انتہائی غصے میں تھے
بابا جی: کیا کر رہے تھے دماغ ٹھیک ہے تم لوگوں کا
ہجوم: بابا جی یہ تیسری مرتبہ کیا گیا ہے اس سے پہلے امام بارگاہ میں گندگی پھینکی گئی،،مجلس میں آتشی مواد پھینکا گیا،،اس دفع تو حد کر دی،،علم مبارک کی بے حرمتی یہ ہم سے برداشت نہ ہوگا۔۔۔۔
بابا جی : تو کیا کرو گے تم لوگ بھی مسجدوں کی بے حرمتی کرو گے نعوذباللہ مسلمان ہو کے کفار کی روش اختیار کرو گے۔۔۔۔
ہجوم: بابا جی انہوں نے بھی تو بے حرمتی کی ہمارے مقدسات کی ذوالجناح کی،علم کی،مجلس کی،امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی۔۔۔
بابا جی گرجدار آواز میں بس۔۔۔۔!! کہہ دیا ان کا اپنا ایمان ہمارا اپنا ایمان ہم کسی جھگڑے میں نہیں پڑیں گے یہ کہہ کر جلوس کو چلنے کا حکم دے دیا
جلوس چل پڑا تھا مگر کشیدگی بتا رہی تھی کہ یہ معاملہ رکنے والا نہیں جلوس کی آنکھوں خون اترا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔دوسرا منظر۔۔۔۔۔
جامع مسجد عمر بن خطاب میں مولوی صاحب کمیٹی کے چند معتبر بندوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے،اس نشست میں اہل سنت والجماعت کی تمام تر مدارس/اداروں کے سربراہان بھی موجود تھے۔۔معاملہ فقہ جعفریہ پر ہونے والے پے درپے حملے تھے ۔۔مولوی صاحب نے اکٹھا بھی اور فرداً فرداً بھی تمام شرکاء سے پوچھا مگر ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے پر کوئی بھی تیار نہیں تھا سبھی کی ایک ہی بات تھی کی فقہ جعفریہ ہو یا کوئی بھی مسلک سبھی کی مقدسات ہمارے لیئے قابل احترام ہیں ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔۔بالا آخر مولوی صاحب نے بات شروع کی۔۔۔
مولوی صاحب: دیکھیں قبلہ میں کسی پر الزام نہیں لگا رہا ہو سکتا ہے آپ کے علم میں نہ ہو بچو نے غلطی کی ہو مگر خدارا اس چیز پر نظر رکھیں دوبارہ یہ معاملہ نہیں ہونا چاہیئے۔۔یہ بات مذہبی انتشار کا باعث بنے گی اور حیدر بابا سے میری بات ہوئی تھی وہ گلہ کر رہے ہیں کہ آپکے لڑکوں نے علم کو پھینکا نیچے نعوذ باللہ۔۔۔اس بات پر سبھی کے چہروں کے رنگ متغیر ہو گئے۔۔
دیکھیئے مولوی صاحب یہ الزام تراشی ہے،ہم نے نہ تو حملہ کیا اور بےحرمتی تو بہت بڑی تہمت ہے،،نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم مبارک کی بے حرمتی کے متعلق سوچنے سے بھی پہلے ہماری سات نسلیں برباد کیوں نہ ہو جائیں۔۔خیر گھنٹوں کی ڈسکشن لاحاصل رہی کوئی نہ مانا کہ اس سب میں اس کا ہاتھ ہے پھر بھی مولوی صاحب نے سب سے درخواست کر کے انہیں رخصت کر دیا کہ خدارا جو کوئی بھی کر رہا ہے،،دوبارہ نہ کرے۔۔۔!!
مغرب کی نماز وہی پر ادا کی گئی اور تمام احباب رخصت ہو گئے مسجد سے نکلتے ہیں سب اپنی اپنی سمت ہو لیئے مگر جیسے ہی دوسری دوسری گلی میں مڑے یک دم دھاوا بول دیا گیا۔۔نعرہ حیدری کی صدا بلند ہوئی تھی اور یا علی کے ساتھ ہیں سیاہ لباس میں ملبوس مختلف ہتھیاروں کے ساتھ چار چار کی ٹولیوں نے حملہ کر دیا اور 2 سے تین منٹ میں غائب ہوگئے مگر ان دو تین منٹوں میں تمام معززین میں سے زیادہ تر زخمی ہو گئے تھے ایک دو کی حالت کشیدہ تھی منٹوں میں ہجوم اکٹھا ہوگیا۔۔۔زخمیوں کو ہسپتالوں میں پہنچایا گیا سبھی بپھرے ہوئے تھے،،کچھ ایسی ہی آوازیں تھی
"ہم بتائیں گے ان شیعوں کو ابھی"
"جنگ تو ابھی شروع ہو گی"
"شروع انہوں نے کیا ختم ہم کریں گے"
"کوئی جلوس نہیں نکلنے دیں گے"
مولوی صاحب اور چند بڑوں نے سمجھانے کی کوشش کی مگر بے سود،،قریبی تھانے میں ایف آئی آر کٹوا دی گئی تھی جس میں مشکوک لسٹ میں مرکزی امام بارگاہ کے چند بڑوں کے نام درج کیئے گئے تھے۔۔
فضا دونوں طرف بہت کشیدہ ہو چکی تھی،،جو چیخ چیخ کر کسی بڑے بہت بڑے طوفان کی آمد کی وعید سنا رہی تھی۔۔۔دونوں فریقین کے سروں پر خون سوار تھا ہر طرف لڑنے مرنے کی باتیں ہو رہی تھی اور اگلے آٹھ دنوں میں بین المسالک رواداری کے ساتھ ساتھ شاید سینکڑوں جانیں بھی قربان ہونے کو تھیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔تیسرا منظر۔۔۔۔۔
نعرہ فاروقی "یا عمر" ایک لڑکا صحن میں کھڑا مسلسل ایک ہی نعرہ دہرا رہا تھا۔۔یہ ایک اونچی فصیل والا مکان تھا جو آبادی سے تھوڈا ہٹ کر تھا دو بندے مکان میں داخل ہوئے اور سیدھا کمرے کی طرف بڑھ گئے ان میں سے ایک انتہائی غصیلے لہجے میں اندر موجود بندے سے مخاطب ہوا۔۔۔
یہ کیا کر رہے تو تم لوگ مجھے معلوم ہوا تمہارے بندے نے نعرہ غلط لگا دیا حملے کے وقت سارا کیا دھرا خراب کرو گے کیا۔۔
کمرے والا آدمی: میجر صاحب پریشان نہ ہوں کچھ نہیں ہوا چار تھے ان میں سے ایک کے منہ سے یا علی نکل گیا نعرہ فاروقی کے جواب میں باقی تینوں نے ٹھیک لگایا اور جس نے غلطی کی وہ باہر صحن میں ہزار مرتبہ اس نعرے کی مشق کر رہا ہے۔۔۔
میجر: کیا مطلب پریشان نہ ہوں اگر یہ غلطی نوٹ ہو گئی کسی کو معلوم ہو گیا جلوس میں سے کسی نے سن لیا ہو تو۔۔۔۔
کمرے والا آدمی:سر میں کیا کروں آپ بھی تین تین دن پہلے بندے لا کر دیتے ہیں پہلے تو ان کی ہندی ختم کر کے اردو لب و لہجہ بنانا پڑتا وہ بن بھی جائے تو انہیں مسلمانوں کے مقدسات کا معلوم نہیں دونوں نعرے یاد کروائے تھے کنفیوژ ہو گیا بندہ بس آپ سے کہا تھا مرزا صاحب سے بندے لے دیں،،
میجر: مرزا سے پہلے ہی بہت بندے لیئے ہیں لیکن چلو مجھے نمبر ملا کر دو میں بات کرتا ہوں۔۔۔۔
کمرے والا آدمی: مرزا مسرور کے سیکرٹری کا نمبر ملاتے ہوئے۔۔میجر صاحب اس طرح کے مذہبی معاملات میں مقامی بندے دیا کریں سارے۔۔۔!اور ساتھ ہی موبائل میجر کو دے دیا۔۔
سیکرٹری : ہیلو۔۔ہیلو۔۔جی کون۔۔۔؟
میجر: مرزا صاحب سے بات کروا دیں۔۔۔
سیکرٹری: وہ مصروف ہیں آپ بعد میں کال کیجیئے گا۔۔
میجر: اسے بتائیں میجر پرمیش کی کال ہے۔۔
سیکرٹری: اوہ اوکے۔۔کچھ دیر بعد
مرزا مسرور: ہیلو جی میجر صاحب کیسے یاد کیا۔۔
میجر پرمیش: مرزا صاحب آپکو کہا تھا مذہبی معاملات کے لیئے مین پاور ساری آپ دیا کریں انڈیا سے لائے گئے بندے ان معاملات کو سمجھنے میں بہت وقت لیتے ہیں۔۔۔
مرزا مسرور:میجر صاحب ہم خود یہی چاہتے ہیں مگر مسئلہ یہ کہ اعتماد والے بندوں میں سے 2200 بندہ اسرائیل بھیج دیا ہم نے ٹریننگ کے لیئے بہرحال آپ بے فکر رہیں میں کرتا ہوں کچھ۔۔۔
میجر: مرزا صاحب جو مرضی کریں مگر ہمیں بندے دیں ہم نے اتنی انویسٹمنٹ کی ہے۔۔۔
مرزا: میجر صاحب انویسٹمنٹ کا جتانا چھوڈیں یہاں ہم دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے،،آپ کا ازلی دشمن آپکی تمام چالوں کو ناکام بنا کر دوبارہ پاوں پر کھڑا ہو رہا ہے۔۔۔
میجر پرمیش: مرزا صاحب جانتا ہوں،،آپ بس یہ شیعہ سنی وہابی کافر کی آگ لگائے رکھیں،کیونکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ حقیقتاً تو ان سبھی مسالک میں کوئی اختلاف اور جھگڑا ہے ہی نہیں جس پر یہ لڑیں لہذا باہر سے ہی چنگاری پھینکنی پڑے گی اور وہ چنگاری آپ ہیں بس بھڑکا دیں ایک بار پھر آپ کو کافر قرار دینے والے اس ملک کے پاوں اکھاڑنا ہمارا کام۔۔
مرزا مسرور: جی جی بے فکر رہیں اختلاف نہیں تو کیا ہوا ہم کس لیئے ہیں یہی اختلاف تو پیدا کرنا کام ہمارا ویسے مجھے میرے ذرائع سے معلوم ہو چکا ہے ہم کامیاب رہے ہیں جلوس پر کروائے جانے والے حملے اور سنیوں کے علماء اور کمیٹی ممبران پر کروائے گئے ہمارے حملوں نے دونوں طرف آگ بھڑکا دی ہے اب یہ دونوں خود ہی جل کر بھسم ہو جائیں گے۔۔۔
میجر پرمیش :: ہاہاہایاہا گڈ گڈ
تحریر: ماسٹر محمد فہیم امتیاز
Cyber Defence & Co

0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔