تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
اتوار، 10 جون، 2018

مغرب،مشرق کا فرق یا تربیت کا - ماسٹر محمد فہیم امتیاز

ایک کنسیپٹ پایا جاتا ہے ہمارے نیم لبرل،زیادہ تر ماڈرن،اور کچھ حد تک اوور کانفیڈینس غیرت سے عاری نام نہاد کلاس کے شوقین افراد میں بھی جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور پاکستانیوں کو برا بھلا کہنا بے تکی تنقید کرنا اور خو کو مغربزدہ ظاہر کرنا شاید ہماری کلاس شو کرے گا ہمیں بڑا مہذب اور اس جاہل گنوار معاشرے میں مس فٹ ثابت کرے گا۔۔۔

کنسیپٹ یہ کہ پاکستانی عوام جاہل ہے،گنوارہے،ان پڑھ ہے ان میں مینرز نہیں ہیں اخلاقی اقدارکا فقدان ہے وغیرہ وغیرہ۔۔لہذا اس بنیاد پر مغرب(یورپی ممالک) اور وہاں کے لوگ اچھے ہیں،ان میں مینرز ہیں انسانیت ہے وہ امن پسند اور پتہ نہیں کیا کیا ہیں،،کچھ زیادہ لبرل کا بس نہیں چلتا وہ ابو ہی کہہ دیں ان یہود ونصاریٰ کو جن میں کل تک نہانے کو بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔۔۔۔۔!(مغرب کی تعلیمات اور تاریخ کا موازنہ اور اس کاحقیقی رنگ ایک الگ پوسٹ کی صورت میں بیان کروں گا)

یہ کنسیپٹ ٹوٹلی غلط ہے میں وضاحت کرتا ہوں۔۔لوگ اچھے برے نہیں ہوتے ہو بھی کیسے سکتے ہیں۔۔؟کامن سینس کی بات ہے یہ کوئی مشین تو ہے نہیں جس میں اچھا برا میٹیریل استعمال ہو اوراس بنیادپر اچھی ایٹم تیار ہو یا فیول اچھا ڈلے تو رسپانس اچھا آئے یا فیکٹری اچھی تھی جہاں بنا گیا یا کوئی ایسی بات۔۔۔۔۔۔۔۔
سبھی انسان پیدا ہوتے ہیں ماں کے پیٹ سے سبھی ایک ہی طرز پر مینیوفیکچر ہوتے ہیں ہاں کچھ خداد صلاحیت،انٹلیکچول لیول،بریوری،پکنگ پاور،ذہانت وغیرہ ضرور ہوتی ہیں مگر ان کا اثر اخلاقی اقدار پر،رہنے سہنے پر طرز زندگی پر اس قدر نہیں ہوتا کہ اس بیس پر کسی کو اچھا یا برا کہا جا سکے۔۔۔۔

پھر سوال یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے متعلق یہ بکواس قسم کا کنسیپٹ یہ مخصوص طبقہ کس بنیاد پر رکھتا ہے۔۔۔۔وہ بنیاد ہوتی ہے "تربیت"

سسٹم،ماحول،نظام تعلیم،قوانین،میڈیا،ادارے،حکمران،یہ سب چیزیں معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہیں،،افراد پر اثر انداز ہوتی ہیں۔۔یہی عناصر افراد کے رویوں کا تعین کرتے ہیں۔۔جس طرح سے یہ تمام عناصر انسان کو مولڈ کریں گے وہ ہو جائے گا انسان فطری طور پر تغیرات کو قبول کرتا ہے

میں ایک مثال دیتا ہوں سادہ سی۔۔👇👇
میرے بھائی محمد علیم کے پروفیسر سنگاپور گئے وہاں پر انہوں نے ایک سگنل بریک کیا جس پر انہیں 500 ڈالر جرمانہ ہوا،پانچ سو ڈالر ایک خطیر رقم ہے
جو انہوں نے ادا کر دی مگر بقول ان کے اس واقعے کے بعد وہ جتنی دیر وہ سنگاپور میں رہے روڈ پر کسی بھی سگنل پر 20 فٹ پہلے ہی بریک دباؤ بڑھا دیتے تھے کہ کہیں اچانک سے قریب جانے پر سگنل ریڈ نہ ہو جائے اور ٹائر لائن کو ٹچ ہی نہ کر جائے،ابھی ان پروفیسر صاحب کی طرح اگر وہاں پر سو افراد بھی ہیں اور سبھی اسی طرح سگنل سے پہلے مکمل احتیاط برت رہے ہیں تو ان سب کے #بچے جو ان کے ساتھ سفر کرتے ہیں ان کے ذہن میں یہ کنسیپٹ ہی نہیں بنے گا کہ سگنل توڑ کر بھی گزرا جا سکتا ہے۔۔ایک پوری جنریشن جس میں یہ رواج ہی نہیں،کنسیپٹ ہی نہیں،کبھی دیکھاہی نہیں،جن کی عادت بن چکی ہو قانون کو پاسداری کرنے کی جنہیں ماحول ملا ہو قانون کی پاسداری والا وہ کیسے سگنل توڈ کر گزرے گا،کیسےریپر روڈ پر پھینکے گا،وہ کیسے کسی آفیسر سے بدتمیزی کرے گا یا کیوں ناپ تول میں بے ایمانی کرے گا۔۔۔۔۔؟؟

اب یہ بات سمجھنے والی ہے کہ یہ سگنل نہ توڑنا،ریپر ڈسٹبن میں ڈالنا،انتظامیہ سے مہذبانہ رویہ رکھنا،ایمانداری برتنا اس بچے کی اور اس پوری جنریشن کی مجبوری نہیں عادت ہے فطرت بن چکی ہے۔۔مجبوری تو اس کے باپ اور ان کی جنریشن کے لیئے تھی جنہیں پہلی مرتبہ اس کام پر پکڑا گیا سزا دی گئی۔۔۔۔۔۔!!

آج بھی آپ ابزرو کر لیں جو پاکستانی بیرون ملک جاتے ہیں وہ وہاں پر جا کے کیوں وائلیشن نہیں کرتے۔۔وہی پاکستانی جب سالوں بعد پاکستان میں آتے ہیں تو ان کے بچے یہاں کے ماحول پر حیرت کا اظہار کیوں کرتے ہیں۔۔۔

وجہ صرف یہ کہ سسٹم اثر انداز ہوتا ہے۔۔کسی کے پاکستانی،انڈین،امریکن،کینڈین ہونے سے فرق نہیں پڑتا فرق تربیت سے پڑتا ہے جو معاشرہ کرتا ہے اور معاشرے کی تربیت اس کو چلانے والے عناصر کرتے ہیں۔۔۔

ورنہ دوسری صورت میں تو پاکستان جیسا مہذب معاشرہ کہیں دنیا میں ہی نہ ہو جہاں 97 پرسنٹ مسلمان آباد ہیں،جو سلامتی والے دین پر کاربند ہیں،جن کی تعلیمات دنیا کی تمام اخلاقی اقدار کی ماخذ ہیں

لہٰذا یہ سوچ بدلیں کہ پاکستانی ایسے ہیں ویسے ہیں سب سے پہلے خود کو ٹھیک کریں پھر سسٹم کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں ماحول پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا مشاہدہ کریں اور انکی بہتری کے لییے بساط بھر کوشش کریں۔۔سوشل میڈیا پر یا گراونڈ لیول پر اظہار رائے کے نام پر مغلظات بکنے،دانشوری جھاڑنے،یا مغربیت کے راگ الاپنے سے آپکی کم عقلی اور پاکستان فوبیا ظاہر ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

صفحات

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
 
فوٹر کھولیں