ہمارے شہر کے گھوڑے دودھ نہیں دیتے۔۔۔
کیسا نکما شہر واقع ہوا ہے نا ہمارا کہ دوسرے شہروں کی بھینسیں دودھ دیتی ہیں لیکن ہمارے شہر کے گھوڑے بس دوڑنے جوگے۔۔!!
تعجب بالکل بجا ہے آپکا۔۔ لیکن اس تحریر کا ماخذ ایک ایسی ہی مثال ہے جو گزشتہ دنوں دو تین بار نظر سے گزری۔۔۔!
جس میں ایک پاکستانی مارشل آرٹسٹ کے ایک منٹ میں سب سے زیادہ سر سے اخروٹ توڑنے کے عالمی ریکارڈ کو لے کر اظہار افسوس اور اپنی قومی ترجیحات پر ماتم کیا جا رہا تھا کہ جی یہ بھی کوئی کرنے والا کام ہے،ساتھ میں ایک اسرائیلی سائنسدان کی تصویر لگائی گئی تھی کہ یہ دیکھیے اس اسرائیلی سائنسدان نے کیمیائی میدان میں نوبل پرائز حاصل کیا ہے،اور یہاں ہم اخروٹ توڑنے کے ریکارڈ بنا رہے تحریر کا کرکس یہ تھا کہ کہ باقی دنیا دماغ کا اندر والا حصہ استعمال کر رہی اور ہم اوپر والا وغیرہ وغیرہ(جیسے باقی کے پونے سات ارب تو سب سائنسدان ہی ہیں نا😃)
اس تحریر کو پڑھ کر میرے ذہن میں فوراً یہی آیا کہ گھوڑے کے دودھ نہ دینے پر ماتم کیا جا رہا ہے۔۔۔
انتہائی کامن سینس کی بات ہے کہ ہر ہر فیلڈ کی اپنی مہارتیں ہوتی ہیں،اپنے ریکارڈز ہوتے ہیں،اپنی اچیومنٹس ہوتی ہیں،اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔۔۔
مارشل آرٹ اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی مکمل طور پر دو الگ الگ شعبہ جات ہیں،جن کا آپس میں دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔۔!!
جو بندہ ایک سپورٹس مین ہے،ایک مارشل آرٹسٹ ہے ڈیفینیٹلی وہ اپنے شعبے میں ہے نام پیدا کرے گا وہ اور اسی میں پاکستان کی ترجمانی کرے گا اس کا سائنس یا کسی اور شعبے سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔۔۔!!
یہاں یہ گزارش بھی کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی قدر پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے،کوئی انسینٹیو نہیں ملتا بیچاروں کو۔۔تو کم از کم اتنا تو کریں کہ انہیں اپریشیٹ نہیں کر سکتے تو ڈیگریڈ بھی نہ کیا جائے۔۔!!
اگر موازنہ کرنا ہی ہو تو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں چاہے ہم فرسٹ ورلڈ کنٹریز جیسے نہیں(جس پر بہت سے عوامل اثرانداز ہیں) لیکن اس میدان میں بھی پاکستان کے پاس ارفع کریم جیسے درخشاں نام موجود ہیں،عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ینگسٹ سائنٹسٹ شہیر نیازی جیسے جوان موجود ہیں۔۔ہزیر اعوان جیسے بچے موجود ہیں جنہیں دنیا کے سب سے کم عمر مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔۔ ان کا موازنہ کیجئے۔۔!!
خیر یہاں دو تین باتیں واضح کرنا مقصود ہے کہ اگر ایک شعبے میں کچھ خاطر خواں کامیابیاں نہیں سمیٹی جا رہیں تو ان کو جواز بنا کر ہم باقی شعبہ جات سے منسلک لوگوں کو ڈیگریڈ نہیں کر سکتے۔۔۔اور نہ ہی دوسرے غیر سائنسی شعبہ جات سے منسلک افراد کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کردار ادا نہ کرنے کا طعنہ دینا کوئی معقول اپروچ نظر آتی ہے۔۔۔ایسے ہی اگر موازنہ بھی کرنا ہو تو مشترک شعبہ جات کا ہی کیا جائے گا۔۔۔ورنہ مذکورہ بالا سائنٹسٹ اور مارشل آرٹسٹ کے موازنے کو پڑھ کر تو بندے کو یوں محسوس ہوتا کہ کوئی دانشور بیٹھا اس بات پر سر پیٹ رہا کہ صد افسوس صد افسوس"ہمارے شہر کے گھوڑے دودھ نہیں دیتے۔۔!!
تحریر: ماسٹرمحمدفہیم امتیاز
#ماسٹرمحمدفہیم
نوٹ:(تصویر میں گھوڑا دودھ کا مطالبہ کرنے والوں کو منہ چڑھا رہا ہے😀)
08،اکتوبر،2020
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔