تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
منگل، 21 جنوری، 2020

کل پھر تاریخ میں لکھا جائے گا ۔ ماسٹر محمد فہیم امتیاز



کل پھر تاریخ میں لکھا جائے گا!
بات ایران کے جواب دینے یا نہ دینے کی نہیں۔ نہ جنرل قاسم سلیمانی کے پاکستان کے لیے اچھا برا ہونے کی ہے؟ بات ہماری اپروچ کی ہے، جو اتنی غلیظ ہے کہ لکھتے ہوئے الفاظ بھی احتجاج میں چیخ اٹھتے ہیں۔ ایک مسلمان ملک کا جرنیل مار دیا گیا امریکہ کی طرف سے۔  بھاڑ میں گئی یہ بات کہ کس ملک کا تھا ایران ، سعودی عرب ، عراق ، لیبیا یا ترکی ، ملائیشیا لیکن مسلم دنیا کا ایک سپہ سالار جو ایک اتھارٹی ہوتا مار دیا گیا اور مسلمان یہاں بیٹھ کر یہ بات کر رہے وہ شیعہ تھا یا سنی؟
خود سے سوچ لیجیے ایسی قوم کا مستقبل کیا ہو سکتا
تف ہے ، تف ہے قسم سے اس ذہنیت پر

ہم اپنے مسلکی تعصبات میں اتنے آندھے ہو چکے ہیں کہ نہ تو ہمیں ولا تفرقو کا حکم باز رکھ پایا، نہ ہمیں پاکستانیت کھینچ کر ایک جگہ اکٹھا کر سکی نہ ہمیں تاریخ جھنجھوڑ کر جگا پائی۔
ہر چوتھا بندہ تاریخ دان بنا پھرتا ہے، ہر چوتھے بندے کی وال پر یہ لکھا ہوتا کہ جی جب تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی، جب ہلاکو خان بغداد پر چڑھائی کر رہا تھا تو مسلم سلطنت کے دارلخلافہ بغداد میں اس سوال پر بحث جاری تھی کہ کوا حلال ہے یا حرام۔!

آج ہماری ذہنیت، ہمارا متعصبانہ رویہ چیخ چیخ کر یہ بتا رہا ہے،یہ پیشن گوئی کر رہا ہے کہ تمہارا وقت بھی دور نہیں تم آپس میں دست و گریباں ہو گے اور پھر سے کوئی تاتاری لشکر تمہاری دستاروں کو اپنے گھوڑوں کے ٹاپوں تلے روندتا ہوا گزر جائے گا اور کل پھر سے تاریخ میں لکھا جائے گا کہ جب یہود ونصاریٰ ایک ایک کر کے مسلمان سربراہان اور جرنیلوں کو مار رہے تھے، تو مسلم دنیا میں یہ بحث چل رہی تھی کہ مرنے والا شیعہ ہے یا سنی۔
Reject Sectarianism

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

صفحات

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
 
فوٹر کھولیں