مولویوں میں بھی رہ کر دیکھ لیا بہت قریب سے۔۔۔اور لبرلزم کے علمبرداروں کو بھی بہت پڑھ سن لیا۔۔۔
یقین مانیے یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔۔۔بد سے بدنام برا کے مصداق مولوی نام ہی بدنام ہو چکا۔۔میں یہ نہیں کہہ رہا مذہبی شدت پسندی ایگزیسٹ نہیں کرتی بہت زیادہ کرتی ہے اور اس پر بہت سارا لکھ بھی چکا میں تو۔۔۔لیکن شدت پسندی اور تعصب میں دیسی لبرل بھی برابر کی ٹکر دے سکتے بلکہ بہت سی جگہ تو آسانی سے پچھاڑ سکتے مولویوں کو۔۔!!
یہاں یہ فیکٹ بھی کہ مولوی اگر کہیں شدت اختیار کرتا یا متعصب ہوتا بھی تو اس کے پاس اپنے لیے ایک بنیاد ضرور موجود ہوتی یعنی اس کے #نزدیک وہ حکم خداوندی،اس کے خیال میں وہ قرآن و سنت کا فیصلہ ہوتا جس پر وہ ڈٹ جاتا وغیرہ وغیرہ(چاہے اس کی تشریحات غلط ہی ہوں)۔۔۔
لیکن دھوبی کے کَتے(نہ مشرق کے نہ مغرب کے،نہ مذہبی نہ لادین)۔۔! ان کے پاس تو سوائے مذہب بیزاریت اور ماڈرنزم کی نام نہاد خول کے۔۔یا زیادہ سے زیادہ ریشنلسٹ یا انسانیت پسندی کی تاویل کے کوئی تاویل بھی نہیں ہوتی بنیاد تو دور کی بات۔۔!! اور ان میں جو تعصب اور شدت پسندی پائی جاتی اس کا لیول بھی اخیر ہوتا یعنی یہ اپنی دانست میں مذہبی شدت پسندوں اور متعصبانہ رویوں کے خلاف علم بلند کیے ہوئے ہوتے ہیں۔۔انہیں اپنے آپ کے عقل مند ہونے بلکہ عقل کل ہونے کا اتنا پختہ یقین ہوتا ہے کہ ساری دنیا بے وقوف نظر آ رہی ہوتی۔۔ اپنی اسی خوش فہمی میں انتہائی غیر معقول اور متعصب ترین کنسیپٹس پر بھی ہٹ دھرمی اختیار کیے ہوئے ہوتے،،انسانیت اور اخلاقیات کے یہ مامے چاچے بننے والے پھر بات کرتے ہوئے نہ تو تمیز و تہذیب کی فکر کرتے ہیں نہ ہی انسانی احساسات جذبات کا کوئی خیال۔۔!!
تحریر کی دْم یہ کہ بندہ جس بھی کیٹگری میں فال کر رہا ہو اسےکبھی کبھار خود کو بھی انہیں پیمانوں میں ضرور تول لینا چاہئے۔۔جو اس نے دوسروں کے لیے وضع کیے ہوئے ہوتے ہیں۔۔۔پھر چاہے وہ پیمانے مذہبی ہوں،معاشرتی ہوں،عقلی ہوں یا اخلاقی۔۔۔!!!
#ماسٹرمحمدفہیم
21،نومبر،2020
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔