تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
ہفتہ، 18 اپریل، 2020

تم وہ ہو گئے ، فلاں ہو گئے ۔ ماسٹر محمد فہیم امتیاز


ایک عمومی رویہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی بھی فرد کی آزادانہ رائے پر اسے یا تو کسی دھڑے کا حصہ بنا دیا جاتا ہے یا کسی دھڑے سے الگ کر دیا جاتا ہے،جیسے اس فرد کی ذاتی سوچ کا نظریے کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔۔!!
چند ایک مثالیں سامنے رکھتا ہوں۔!

کوئی ن لیگ کے کسی اچھے کام کو سراہے گا تو پٹواری۔!
کوئی فوج کی حمایت کرے گا کسی معاملے پر تو پالشیا۔!
کسی نے عمران خان کے اچھے اقدام کی تعریف کردی تو یوتھیا۔۔!

کسی نے آل سعود کی کسی بات پر تنقید کر دی تو رافضی اور ایرانی پٹھو۔۔!
کوئی ایران کے کسی پاکستان دشمن قدم پر برہم ہوا تو سعودی ریال خور۔!

اہلسنت کی کسی بات سے اختلاف کر لیا تو سنی نہ رہا!
اہلحدیث کی کسی بات پر تنقید کر دی تو اہلحدیث سے خارج۔۔!
شیعوں کے کسی فعل کی مذمت کر دی تو اہل تشیع کا دشمن ٹھہرا!
یہی حال دیوبندیوں میں۔!

ایسا ہی ججمنٹل رویہ ایک اور شکل میں بھی نظر میں آتا ہے
کسی نے کسی عالم سے سوال کر لیا تو گمراہ، کسی پیر کسی مولانا سے اختلاف کر لیا تو بدتمیز اور گستاخ۔ کسی غلط العام چیز سے برات کا اظہار کر دیا تو بدعقیدہ اور پتہ نیئں کیا کیا۔ فوج کی کسی بات سے اختلاف کر لیا تو غدار اور اینٹی آرمی!!

میرا سوال یہ ہے کہ کیا اچھائی اور برائی کسی دھڑے کے ساتھ نتھی ہے۔۔؟؟ کسی گروہ یا جماعت کی میراث ہے۔۔؟؟ کیا کوئی اس کا ٹھیکدار ہے۔۔؟؟

دیکھیے!!
اچھائی اور برائی۔۔ دو مکمل اصطلاحات ہیں جو اپنے اندر ایک مکمل مفہوم رکھتی ہیں ہیں انہیں ڈیفائن کرنے کے لیے کسی گروہ سے دھڑے سے جماعت سے نتھی کرنے کی ضرورت نہیں! اچھائی اور برائی دو بڑی حقیقتیں ہیں جو ہر ہر جگہ پر ایگزیسٹ کرتی ہیں ہر ہر گروپ میں جماعت میں اچھی اور بری دونوں چیزیں اچھے اور برے دونوں طرح لے لوگ ہو سکتے ہیں۔۔۔!! اگر کسی بندے کا اس حوالے سے کوئی دعویٰ ہے تو کمنٹ میں بتا دیں۔۔۔ وہ دھڑا وہ گروہ (مذہبی، سیاسی، سماجی) بتائیے جسے آپ کہتے کہ یہ منبع برائی ہے۔۔!! یا یہ مکمل حق ہے اس میں رتی بھر بھی کچھ غلط نہیں۔۔!! جس پر دعویٰ کر سکیں کہ یہ مکمل فرشتہ ہے یا مکمل شیطان ہے۔!!

اگر نہیں ہے تو یہ بات بڑی واضح ہے۔ کہ ہر ہر جماعت اور گروہ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اس کی غلط بات پر تنقید کی جا سکتی ہے، اور ہر ہر جماعت اور گروہ کو سپیس دی جا سکتی ہے اس کی درست اور اچھی باتوں کو مانا جا سکتا ہے۔۔!! اور ایسا کرنا پٹوری، یوتھیا، پالشی، سنی، اہلحدیث، بریلوی، شیعہ، مذہبی، لبرل، باادب، گستاخ، غدار یا وفادار ہونے کا تقاضا ہو یا نہ ہو۔ اشرف المخلوقات ہونے کا صاحب عقل ہونے کا تقاضا ضرور ہے۔

کوئی بندہ اختلاف کرتا ہے تو اس اختلاف کی تنقید کی وجہ دیکھا کریں فریق مخالف کا نقطہ نظر سمجھ کر پھر اسکی تائید یا تردید کیا کریں۔۔ناکہ اسکی کسی چیز کی حمایت یا مخالفت کو بنیاد بنا کر اس پر کوئی ٹھپہ لگا دیا جائے اسے کسی مخصوص دھڑے کا حصہ بنا دیا جائے۔ یا کوئی فتویٰ تھوپ دیا جائے۔!!

وسعت نظری پیدا کیجیے، مخالفین کو سپیس دینا شروع کیجیے،اپنی جماعت یا گروہ کو فرشتہ سمجھنے کے بجائے اس کی خامیوں کو سمجھیے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کیجیئے۔ مخالف جماعت کی اچھی چیزوں کو کھلے دل سے قبول کرنا شروع کیجئے یہی اعلیٰ ظرف اور باشعور افراد کا وطیرہ ہوتا ہے!!
جاری ہے۔۔۔


0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

صفحات

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
 
فوٹر کھولیں