چلیں ایک اور ٹاپک سہی۔۔
صلاح الدین یہ چلنے والا ہے چھ ستمبر تک یا چلو سات تک یا چلیں نو یا دس تک۔۔! یہ حقیقت ہے یہ المیہ ہے ہمارا قومی المیہ قومی ہی نہیں فطری بھی ہے باپ مرنے کا غم بھی مہینوں میں ختم ہو جاتا،آنسو سالوں پر محیط نہیں ہوتے۔۔۔۔
ہاں آنسو در آنسو میں سال کیا عمریں نکل جاتی ہیں۔۔
بہائے ہیں نا آنسو۔۔۔۔
نقیب محسود کے قتل پر
سانحہ ساہیوال پر
زینب کی پامالی اور قتل پر
مولانا سمیع الحق پر
بلال خان کی شہادت پر
فرشتہ کے ساتھ زیادتی اور قتل پر
یہ روز روز کے آنسو تو نا اب کھیل بن گئے، روز مرہ کا معمول سا لگنے لگا ،دراصل اب یہ انسانیت کے، غم کے، دکھ کے، احساس کے آنسو رہے ہی نہیں،یہ مگرمچھ کے آنسو بن چکے ہیں میرے بھائی مگر مچھ کے آنسو۔۔۔
جو چھوٹی موٹی بات پر تو نکلتے ہی نہیں پہلے سوچتے ہیں،کہاں نکلنا ہے کہاں نہیں نکلنا۔۔ دیکھیے نا اب ہم موازنہ کرتے ہیں، صلاح الدین کو تڑپا تڑپا کر مارا تو ہم نے بھی رسم پوری کرنے کی ٹھان لی صفحے کالے کرنے شروع کر دیے۔۔
اسی بیچ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ڈپٹی کمشنر گاڑی کو راستہ نہ ملنے پر ایمبولینس کو بیچ چوراہے بند کر دیتا ہے مریض سڑک پر ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے کس کے کان پر جوں رینگی۔۔؟ اپنی بے گناہی کی گواہی دینے گئے دو بچوں کے باپ عامر مسیح کو کل ہی کے دن پولیس تشدد کر کر کے مار دیتی ہے،کہاں ہیں آنسو۔۔؟؟
یہ سمجھیے میرے بھائی یہ سمجھیے ہم بحثیت قوم ظلم کے عادی ہوتے جا رہے ہیں،ہم بحثیت رعایا حاکم کی بے حسی کو قبول کر چکے ہیں، سمجھوتہ کر رہے ہیں،ہم صحیح معنوں میں مردہ قوم کی تعریف پر پورا اتر رہے ہیں۔۔۔
جہاں چہرے بدلنے کے لیے جہاں کرسی کھینچنے کے لیے ایک سو چھبیس دن سڑکوں پر بیٹھا جا سکتا وہاں یہی انقلابی لوگ نظام بدلنے کے لیے، انصاف کے حصول کے لیے چھبیس دن سوشل میڈیا پر بھی آواز نہیں اٹھا سکتے۔۔؟ کیوں سوال نہیں کیا جا رہا انصاف کے دعوے داروں سے۔۔یہاں بے بسی تو نہیں یہ انصاف پیسے سے تو نہیں ملنا،یہ نظام آئی ایم ایف کے قرضے سے تو درست نہیں ہونا،یہ تو طاقت سے، فیصلوں سے ہونے والا۔۔۔میرے بھائی خان صاحب کو جھنجھوڑیے، جگائیے اپنی کرسی سے کھڑا کر کے گھومائیے کرسی کی طرف اور بتائیے کہ یہ کرسی خان صاحب یہ کرسی وزارتِ عظمیٰ کی ہے،آپ اس ملک کے پاکستان کے وزیراعظم ہیں،جس کے نظام کی درستگی کے پہاڑے رٹائے ہیں آپ نے عوام کو۔۔تو اب کیا چیز مانع ہے۔۔؟ کیا مجبوری ہے۔۔؟ یہ بے حسی کیوں۔۔؟
یہ آپ کا اور ہمارا کرنے کا کام ہے،آپ ہی نے خان کو مسند پر سجایا ہے،آپ نے ہی اس سے سوال کرنا ہے،ورنہ ورنہ یہ آنسو بہانے کی ریت جاری ہے،ہر دوسرے دن اور دو دن کے لیے ہی پوری کر لی جاتی جو۔۔آج کتنے لوگ بات کر رہے سانحہ ساہیوال کی،آج کتنوں کو یاد ہے بلال خان،آج کتنوں کی زبان پر زینب اور فرشتہ ہیں۔۔؟ بس یونہی بس یونہی چار دن بعد صلاح الدین بھی کہیں کھو جائے گا،پھر کوئی اور ہوگا چار دن کا ٹاپک کوئی زید کوئی بکر بھینٹ چڑھے گا ہماری بے حسی کے۔۔۔!!
یہ نہ ہونے دیں،اس قوم کو یوں تباہی کی طرف نہ ہانکیں،صحیح اور غلط نظر آ رہا ہو تو ڈٹ جائیں،پارٹی پرستی،شخصیت پرستی سے بالا تر ہو کر، پولیس ریفارمز کا پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں پھر لکھ رہا باقاعدہ کام کرنے والا ہوں،پورا محکمہ برا نہیں مگر اوور آل گراف انتہائی پستی پر ہے، ریفارمز لازمی ہیں،مجھے نہیں معلوم کتنے لوگ میرے ساتھ کھڑے ہوں گے اس میں،لیکن میں ایک کوشش کرنے والا ہوں ہمیشہ کی طرح کہ شاید ان جھلملاتی آنکھوں میں امید کی کرن چمکے۔۔۔!! کل پھر کوئی ہمارے بے حسی کی بھینٹ نہ چڑھے۔۔!!

0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔