اس کا سانس پھولا ہوا تھا،نتھنے تیز تیز پھول اور سکڑ رہے تھے ،پسینہ بالوں سے بہتے بہتے جوگرز تک جا رہا تھا،آنکھوں میں ایک وحشت تھی ٹانگیں جواب دے رہیں تھیں مگر وہ پوری قوت مجتمع کیے دوڑے جا رہا تھا،اور ذہن میں صرف ایک ہی خیال کیا آج میں ہار جاؤں گا ،کیا آج میرا ناقابل شکست کا ٹائٹل مجھ سے چھن جائے گا،وہ اپنے سکول کے دور سے ٹاپ کرتا آ رہا تھا ہر رننگ اور فوج میں آ کر بھی یہ ریت برقرار رکھی تھی لیکن آج سیر کو سوا سیر مل گیا تھا،زید اس سے کم و بیش 6سو میٹر آگے نکل گیا تھا، اور محض ڈھائی سے تین سو میٹر اختتامی لائن سے دور تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے زید جیت چکا تھا،زبیر سے ناقابل شکست کا ٹائٹل چھن چکا تھا کیونکہ سامنے زید تھا،لانس نائیک زید عالم جس کے متعلق پوری یونٹ میں مشہور تھا کہ وہ پیدا ہی رننگ کے لیے ہوا ہے،زید کو رننگ کا جنون تھا،اس کے یارو دوستوں کے مطابق یہ کھائے بغیر تو رہ سکتا دوڑے بغیر نہیں۔۔۔
ٹھٹھرتی رات میں سرد ہوا گالوں کو چیرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی،الفا ٹو جھیل کے پانی سے نمودار ہو کر ٹارگٹ کی طرف بڑھ رہا تھا کوئی آواز نہیں،چیتے کی چال چلتے ہوئے الفا ون،ٹو،تھری،اور فور پوزیشن لے چکے تھے،سنائپر ان کھنڈرات کی مکمل ایریا ڈسکرپشن اور ٹیرارسٹ ایکٹیویٹی سے مطلع رکھے ہوئے تھے،
جسٹ بلیک زیرو کی کال کا انتظار تھا۔۔
سٹینڈ بائی سٹینڈ بائی ۔۔۔۔گو
گو کے ساتھ ہی چاروں الفاز عقابوں کی طرح جھپٹے اور ایس ایم جیز کے دہانے دشمن پر کھول دیے۔۔۔پہلے جھٹکے میں ہی اطلاع شدہ 28 میں سے 11 دہشتگردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا اور باقی پوزیشن لے کر جوابی فائرنگ شروع کر چکے تھے۔۔۔
اقبال؛ اوئے زید اگر کبھی تمہارا چارج بن گیا اور سیل وغیرہ ہو گی تو سب سے مشکل چیز کیا ہوگی تمہارے لیے۔۔؟؟
زید ؛ اوئے بالے دماغ کا علاج کروا یار اللہ نہ کرے مجھے کیوں ہو سیل۔۔؟
اقبال؛ ہاہاہا یار صرف پوچھ رہا ہوں بتاو تو۔۔؟
زید ؛ یار اللہ نہ کرے کبھی سیل ہو میرا سب سے بڑا نقصان رننگ کا ہوگا،میرے لیے رننگ رکنا مطلب سانسیں رکنا تمہیں معلوم تو ہے۔۔!
اقبال؛ ہاہاہاہا مجھے پتہ تھا یار عجیب بندے ہو تم کسی کو پے کی ٹینشن کے تنخواہ کٹ جائے گی،کسی کو چارج کی کہ ڈاکیومنٹس خراب ہوں گے،کسی کو بدنامی کی،کسی کو کوئی کسی کو کوئی اور تمہیں جیل میں بھی دوڑنے کی فکر۔۔۔۔!!!
زید ؛ یار بالے تمہیں معلوم تو رننگ میرا جنون ہے،جس دن دس بارہ کلومیٹر دوڑوں نہ میرے حلق سے نوالہ نہیں اترتا۔۔!!
اقبال ؛ چل چل پھر نہ اپنی رننگ کی قصیدے شروع کر دینا۔۔
زید ؛ ہاہاہاہا اچھا چل آ چلیں۔۔
اقبال ؛ کہاں۔۔؟
زید ؛ گراونڈ رننگ کے لیے۔۔
اقبال ؛ اور جا پائی میرا دماغ خراب ہے جو تیرے ساتھ دوڑوں۔۔۔!
زید ،قہقہہ لگاتے ہوئے اکیلا ہی اتھلیٹک گراؤنڈ کی طرف بھاگ گیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں جائے گا۔۔۔۔
اور جاتا بھی کیوں سبھی کو معلوم تھا جہاں پر ہمارا سٹیمنا ختم ہوتا وہاں سے زید صاحب کا وارم اپ شروع ہوتا ہے،یونٹ کے جتنے بھی لڑکے رننگ پر جاتے تھے سبھی اتھلیٹکس گراؤنڈ کے چار چار یا زیادہ سے زیادہ پانچ سے چھ چکر لگاتے تھے اور زید دسویں چکر پر کہتا تھا ابھی تھوڑا وارم اپ ہوا ہوں۔۔۔۔!!
گولیاں سنسناتی ہوئی ہوئی کانوں کے پاس سے گزر رہیں تھیں،الفا ٹو کے نائیک نعمان اور سپاہی خالد جام شہادت نوچ کر چکے تھے،دہشگردوں کی طرف سے ہیوی ویپنز راکٹ لانچر اور گرنیڈ کا استعمال شروع ہو چکا تھا،الفا ٹو اور تھری کو انگیج کرنے کی کال دے کر الفا ون اور فور بیک فٹ پر آ کر رش کرتے ہوئے دوسری طرف سے اپروچ بنا رہے تھے تاکہ بیک سائڈ سے جہاں بریچنگ پلان تھی حملہ کر سکیں،،اچانک ایک لانگ برسٹ آیا زید کے کندھے کو چھیلتا ہوا گزر گیا زید گھوم کر گرا اور دوبارہ اٹھ کر اگے بڑھنے لگا مگر اس کے تین میں سے ایک ہی ساتھی ساتھ تھا،لانگ برسٹ دو ساتھیوں کو شہادت کے مرتبے پر فائز کر چکا تھا۔۔۔۔
زید کو رننگ میں ملنے والے شاباش سرٹیفیکیٹ،میڈلز اور شیلڈز کا شمار نہیں تھا،انٹر یونٹ،،انٹر سروسز،،نیشنل لیول،،آل پاکستان اوپن رننگ چیمپین شپ کی ٹرافیز سرفہرست تھیں،اب ایک ہی خواب باقی تھا انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کی نمائندگی،پاکستان کے چہرے کے طور پر دنیا کے سامنے جانا،ایک برسوں پرانا خواب جس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے سالوں سے زید گراونڈ کو اپنے پسینے سے سیراب کر رہا تھا اور سالوں کی محنت نے جہاں اس کی ٹانگوں کو فولاد اور بدن کو کندن کر دیا تھا وہی برسوں کے انتظار نے اس کے جنون کو بھی آگ دی تھی،اب جب مراتھن قریب آ رہی تھی،زید ایک ایک دن گن کر کاٹ رہا تھا،ورک اوٹ ٹائمنگ ڈبل سے بھی ٹرپل کر چکا تھا،صبح شام سوتے جاگتے ڈیڑھ منتھ بعد ملنے والے گولڈ میڈل کو دیکھ رہا تھا،اپنی جیت کی اناؤنسمنٹ کے ممکنہ الفاظ کانوں میں گونجتے رہتے تھے،انہیں دنوں پتہ چلا وزیرستان آپریشن میں یونٹ سے مزید کمک جا رہی ہے،زید کی درخواست پر اسے سی او کے سامنے پیش کیا گیا۔۔
زید ؛ سر میں آپریشن پر جانا چاہتا ہوں۔۔۔
سی او؛ جوان ڈیٹیل ہو چکے ہیں اور ویسے بھی دو ماہ بعد تم میراتھن کے لیے جا رہے جس کے لیے سالوں تیاری اور اتنا انتظار کیا ہے۔۔۔
زید ؛ سر دو ماہ تک آپریشن ختم ہو جائے گا،سر میری نظر میں اے پی ایس کے بچوں کی تصاویر گھومتی ہیں میں بھی دو بچیوں کا باپ ہوں مجھے ایک موقع دیا جائے سر پلیز۔۔۔
سی او سے اپروول ملتے ہیں اگلے تین دن میں زید اپنے 31 ساتھیوں سمیت آپریشنل ایریا پہنچ چکا تھا،زید کی فٹنس اور جنون دیکھتے ہوئے اسے امیجیٹ الفا میں رکھا گیا تھا۔۔۔
تیز فائرنگ، چیخ چنگھاڑ،ہر طرف لگی ہوئی آگ ،گرنیڈ اور لانچر کے دھماکے قیامت سا سماں بنا رہے تھے،واکی ٹاکی گر چکے تھے لاسٹ سنائپر اپڈیٹ کے مطابق ابھی بھی 9 دہشتگرد باقی تھے جو کہ اسی پناہ گاہ میں سے مسلسل مزاحمت کر رہے تھے جس کی بیک سائیڈ پر زید اپنے ایک ساتھی کے ساتھ پہنچ چکا تھا،یہ ایک کھنڈر نما مکان تھا زید اور اسکا ساتھی کھڑکی پھلانگ کر اندر پہنچے راستے میں آنے والے تین کمروں میں پن نکال کر گرنیڈ پھینکے اور بھاگتے ہوئے لاسٹ پر موجود ہال تک پہنچے جہاں پر بقیہ دہشتگرد موجود تھے،وہاں موجود تین دہشتگرد فرنٹ پر موجود الفا ٹو اور تھری پر فائرنگ کر رہے تھے،زید نے دیوار کی آڑ لے کر لانگ برسٹ مارا اور تینوں تڑپ کر گرے دو موقع پر ہلاک اور ایک جسے صرف دو گولیاں لگی تھی اس نے ہاتھ سائیڈ پر کر کے بغل میں لٹکتی ہک کھینچ دی ایک فلک شگاف دھماکہ تھا اور پوری کھنڈر نما عمارت زمین بوس ہو گئی۔۔۔
آہستہ آہستہ اندھیرا چھٹا،وہ ہسپتال میں بستر پر موجود تھا،ہوش آتے ہی سب سے پہلا جو خیال آیا وہ یہی تھا،کیا رننگ چیمپئن شپ گزر تو نہیں گئی،اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں قریب بی پی چیک کرتی نرس سے تاریخ پوچھی
نرس ؛ سر 19اکتوبر
زید ؛ نے بے اختیار ایک طویل اور اطمینان بھرا سانس لیا رگ و پے میں ایک مسرت کی لہر دوڑ گئی کہ ابھی کافی دن باقی تھی آرام سے ڈسچارج ہو سکتا،اپریشن یقیناً کامیاب ہو چکا تھا وہ دھماکے میں شہید ہونے سے بچ گیا تھا اب زید کے سامنے اس کی زندگی بھر کا خواب تھا،گیارہ دن بعد انٹرنیشنل رننگ چیمپئن شپ میں ایک سو چھیانوے (196) ملکوں میں زید پاکستان کی ترجمانی کرنے والا تھا،یہ پرجوش پراعتماد تھا کیونکہ اسے معلوم تھا وہ دی بیسٹ ہے،وہ رننگ کے لیے پیدا ہوا ہے،رننگ میں اسے ہرانا کم از کم کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔
انہیں سوچوں میں ڈوبے ڈوبے اس نے جوش سے لیٹے لیٹے ٹانگ کو کک کرنے کی کوشش کی،لیکن ٹانگیں سن تھی شاید میڈیسن کے زیر اثر تھیں،اس نے ہاتھ لگا کر محسوس کرنا چاہا ٹانگوں کو۔۔۔۔
شلوار کا خالی کپڑا ہاتھ میں آ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
ایک منٹ کے لیے تو بوکھلا گیا،کچھ سمجھ ہی نہ آیا لیکن جیسے ہی صورتحال واضح ہوئی،زید کا سانس رک گیا،چہرہ لٹھے کی طرح سفید ہو گیا،پاوں تلے سے زمین نکل گئی،سرپرآسمان ٹوٹ پڑا،انٹرنیشنل رننگ چیمپئن کی ٹانگیں اس کے وجود کا حصہ نہیں رہیں تھیں ۔۔۔۔!
اس نے جلدی جلدی بے یقینی کے عالم پاگلوں کی طرح ٹانگوں کو ٹٹولا خالی کپڑے کو اچھی طرح مدھولا پورے بیڈ پر پاگلوں کی طرح ہاتھ مارے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی اور دوسرے ہی لمحے دھڑام سے بیڈ سے نیچے آ گرا،کافی چوٹ لگی مگر اس کی پرواہ نہیں تھی جیسے ہی تھوڈا سنبھلا اس کی نظر اپنے جسم کے ساتھ جھولتی شلوار پر پڑی،ایک دلخراش چیخ نکلی اس کے منہ سے ڈاکٹرز اور اس کی بھائی بہن جلدی سے بھاگتے ہوئے اندر داخل ہوئے اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا،بے یقینی اور پاگل پن کی سی کیفیت طاری تھی،،وہ مسلسل ہیجانی کیفیت میں پتہ نہیں کیا کیا بھولے جا رہا تھا،اس کی فیملی اور ڈاکٹرز سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے اسے دلاسہ دے رہے تھے مگر یہ حقیقت تھی کہ بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کو ریپریزنٹ کرنے والے،ناقابل شکست رنر،جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ کھائے بغیر تو رہ سکتا دوڑے بغیر نہیں، لانس نائیک زید عالم دوڑ کا نینشل چیمپن اور گولڈ میڈلسٹ انٹرنیشنل چیمپئن بننے سے چند دن پہلے اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو چکا تھا،اس کے یار دوست بڈیز جو اس کی فٹنس کے گواہ تھے سبھی جمع تھے کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا،کہ ہر وقت دوڑنے والا زید اب کبھی نہیں دوڑے گا،اس نے اپنا جنون،اپنے خواب اپنی برسوں کی محنت اپنی زندگی بھر کی کمائی پاک سر زمین پر نچھاور کر دی تھی،یہاں بہت سی آنکھیں اشکبار تھیں جو زید کے جنون کے گواہ تھے،ان کے آنسو شکوہ کناں تھے کہ خدایا زید کو شہادت کیوں نہ دے دی،کہ اس کی زندگی تو ختم ہو گئی مگر سانسیں چل رہی ہیں۔۔
ماسٹر فہیم(زید کا دوست اور پڑوسی) نے کمبل زید کی ٹانگوں پر دیا اسی وقت موبائل پر نوٹیفیکیشن موصول ہوا اس نے موبائل نکال کر دیکھا،ٹیم سی ڈی سی کے ایک ڈیفینسو کمانڈر کی طرف سے ایک ویڈیو سینڈ کی گئی تھی ساتھ میں ڈسکرپشن تھی پی ٹی ایم اینڈ اے این پی کمبائنڈ پروٹیسٹ۔۔۔!
دروازہ کھلا،میجر ثقلین اندر داخل ہوئے پیچھے دو لڑکوں نے ایک ڈبہ اٹھایا ہوا تھا میجر صاحب آکر زید سے ملے حال احوال پوچھا ڈبے میں سے گرد میں اٹے ہوئے کچھ کاغذات نکال کر زید کے سامنے کیے کچھ باتیں کیں ماتھا چوما اور واپس چلے گئے۔۔۔!
ماسٹر نے ویڈیو پلے کی زور زور کے نعرے لگ رہے تھے،یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے،سامنے ایک لیڈر کھڑا جوش سے تقریر کر رہا تھا یہ پوج نے امارا جینا حرام کیا ہوا ہے،ہمارے علاقے کا امن تباہ کیا ہوا ہے۔۔!
ماسٹر نے ویڈیو دیکھی پاس پڑے زید کو دیکھا اور سوچ میں پڑ گیا کیا زندگی ان جوانوں کی گالیاں کھاتے ہیں،طعنے سنتے ہیں،صبح شام جان مارتے،پھر بھی یہ جوان اس پاک سر زمین پر اس میں بسنے والوں پر اپنے خوشیاں اپنا گھر باہر اپنے بچوں کا باپ،اپنے بیوی کا شوہر،اپنی ماں کا اکلوتا سپوت تو قربان کرتے ہی ہیں ساتھ ساتھ اپنی خواہشات،اپنے خواب،اپنا پیشن،اپنے جینے کے مقصد تک کو وار دیتے ہیں۔۔۔
ماسٹر نے زید کی طرف دیکھا،جس کی آنکھیں بند تھیں آنسو بہہ رہے تھے،ماسٹر پاس بیٹھا اور بولا جانی غم نہ کر۔۔۔
زید؛ آنکھیں کھول کر بڈی یہ غم کے نہیں خوشی کے اور شکر کے آنسو ہیں
ماسٹر؛ حیرت سے زید کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔زید۔۔۔!!
زید ؛ ماسٹر میجر صاحب نے کاغذات جو دکھائے وہ پختونخوا کے 13 بڑے سکولوں میں ایکسپلوژن کا پلان تھا،جو ان 28 دہشت گردوں کا ٹارگٹ تھے،سینکڑوں نہیں ہزاروں ماوں کی گود اجڑنے سے والی تھی، ادھا ملک خون میں نہانے والا تھا،الحمداللہ آپریشن کامیاب رہا۔۔ماسٹر ہم نے نوچ لی وہ غلیظ آنکھیں جو اس خاکی مٹی کو لال کرنے پر تلی تھیں، زید میرا ہاتھ پکڑے کہہ رہا تھا،ماسٹر یار مقصد اتنا بڑا تھا قربانی چھوٹی کیسے ہو سکتی تھی،اللہ پاک نے بہت بڑی قربانی قبول کی ہے میری ماسٹر،، وہ صبر بھی دے گا،پاک سر زمین کی سلامتی کے بدلے جان کی قربانی بہت کم تھی میرے یارا اسی لیے اللہ پاک نے جنون کی قربانی لی ہے،میرے جنون کی قربانی۔۔۔!!
تحریر: ماسٹر محمد فہیم Mohammad Faheem
ٹھٹھرتی رات میں سرد ہوا گالوں کو چیرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی،الفا ٹو جھیل کے پانی سے نمودار ہو کر ٹارگٹ کی طرف بڑھ رہا تھا کوئی آواز نہیں،چیتے کی چال چلتے ہوئے الفا ون،ٹو،تھری،اور فور پوزیشن لے چکے تھے،سنائپر ان کھنڈرات کی مکمل ایریا ڈسکرپشن اور ٹیرارسٹ ایکٹیویٹی سے مطلع رکھے ہوئے تھے،
جسٹ بلیک زیرو کی کال کا انتظار تھا۔۔
سٹینڈ بائی سٹینڈ بائی ۔۔۔۔گو
گو کے ساتھ ہی چاروں الفاز عقابوں کی طرح جھپٹے اور ایس ایم جیز کے دہانے دشمن پر کھول دیے۔۔۔پہلے جھٹکے میں ہی اطلاع شدہ 28 میں سے 11 دہشتگردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا اور باقی پوزیشن لے کر جوابی فائرنگ شروع کر چکے تھے۔۔۔
اقبال؛ اوئے زید اگر کبھی تمہارا چارج بن گیا اور سیل وغیرہ ہو گی تو سب سے مشکل چیز کیا ہوگی تمہارے لیے۔۔؟؟
زید ؛ اوئے بالے دماغ کا علاج کروا یار اللہ نہ کرے مجھے کیوں ہو سیل۔۔؟
اقبال؛ ہاہاہا یار صرف پوچھ رہا ہوں بتاو تو۔۔؟
زید ؛ یار اللہ نہ کرے کبھی سیل ہو میرا سب سے بڑا نقصان رننگ کا ہوگا،میرے لیے رننگ رکنا مطلب سانسیں رکنا تمہیں معلوم تو ہے۔۔!
اقبال؛ ہاہاہاہا مجھے پتہ تھا یار عجیب بندے ہو تم کسی کو پے کی ٹینشن کے تنخواہ کٹ جائے گی،کسی کو چارج کی کہ ڈاکیومنٹس خراب ہوں گے،کسی کو بدنامی کی،کسی کو کوئی کسی کو کوئی اور تمہیں جیل میں بھی دوڑنے کی فکر۔۔۔۔!!!
زید ؛ یار بالے تمہیں معلوم تو رننگ میرا جنون ہے،جس دن دس بارہ کلومیٹر دوڑوں نہ میرے حلق سے نوالہ نہیں اترتا۔۔!!
اقبال ؛ چل چل پھر نہ اپنی رننگ کی قصیدے شروع کر دینا۔۔
زید ؛ ہاہاہاہا اچھا چل آ چلیں۔۔
اقبال ؛ کہاں۔۔؟
زید ؛ گراونڈ رننگ کے لیے۔۔
اقبال ؛ اور جا پائی میرا دماغ خراب ہے جو تیرے ساتھ دوڑوں۔۔۔!
زید ،قہقہہ لگاتے ہوئے اکیلا ہی اتھلیٹک گراؤنڈ کی طرف بھاگ گیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں جائے گا۔۔۔۔
اور جاتا بھی کیوں سبھی کو معلوم تھا جہاں پر ہمارا سٹیمنا ختم ہوتا وہاں سے زید صاحب کا وارم اپ شروع ہوتا ہے،یونٹ کے جتنے بھی لڑکے رننگ پر جاتے تھے سبھی اتھلیٹکس گراؤنڈ کے چار چار یا زیادہ سے زیادہ پانچ سے چھ چکر لگاتے تھے اور زید دسویں چکر پر کہتا تھا ابھی تھوڑا وارم اپ ہوا ہوں۔۔۔۔!!
گولیاں سنسناتی ہوئی ہوئی کانوں کے پاس سے گزر رہیں تھیں،الفا ٹو کے نائیک نعمان اور سپاہی خالد جام شہادت نوچ کر چکے تھے،دہشگردوں کی طرف سے ہیوی ویپنز راکٹ لانچر اور گرنیڈ کا استعمال شروع ہو چکا تھا،الفا ٹو اور تھری کو انگیج کرنے کی کال دے کر الفا ون اور فور بیک فٹ پر آ کر رش کرتے ہوئے دوسری طرف سے اپروچ بنا رہے تھے تاکہ بیک سائڈ سے جہاں بریچنگ پلان تھی حملہ کر سکیں،،اچانک ایک لانگ برسٹ آیا زید کے کندھے کو چھیلتا ہوا گزر گیا زید گھوم کر گرا اور دوبارہ اٹھ کر اگے بڑھنے لگا مگر اس کے تین میں سے ایک ہی ساتھی ساتھ تھا،لانگ برسٹ دو ساتھیوں کو شہادت کے مرتبے پر فائز کر چکا تھا۔۔۔۔
زید کو رننگ میں ملنے والے شاباش سرٹیفیکیٹ،میڈلز اور شیلڈز کا شمار نہیں تھا،انٹر یونٹ،،انٹر سروسز،،نیشنل لیول،،آل پاکستان اوپن رننگ چیمپین شپ کی ٹرافیز سرفہرست تھیں،اب ایک ہی خواب باقی تھا انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کی نمائندگی،پاکستان کے چہرے کے طور پر دنیا کے سامنے جانا،ایک برسوں پرانا خواب جس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے سالوں سے زید گراونڈ کو اپنے پسینے سے سیراب کر رہا تھا اور سالوں کی محنت نے جہاں اس کی ٹانگوں کو فولاد اور بدن کو کندن کر دیا تھا وہی برسوں کے انتظار نے اس کے جنون کو بھی آگ دی تھی،اب جب مراتھن قریب آ رہی تھی،زید ایک ایک دن گن کر کاٹ رہا تھا،ورک اوٹ ٹائمنگ ڈبل سے بھی ٹرپل کر چکا تھا،صبح شام سوتے جاگتے ڈیڑھ منتھ بعد ملنے والے گولڈ میڈل کو دیکھ رہا تھا،اپنی جیت کی اناؤنسمنٹ کے ممکنہ الفاظ کانوں میں گونجتے رہتے تھے،انہیں دنوں پتہ چلا وزیرستان آپریشن میں یونٹ سے مزید کمک جا رہی ہے،زید کی درخواست پر اسے سی او کے سامنے پیش کیا گیا۔۔
زید ؛ سر میں آپریشن پر جانا چاہتا ہوں۔۔۔
سی او؛ جوان ڈیٹیل ہو چکے ہیں اور ویسے بھی دو ماہ بعد تم میراتھن کے لیے جا رہے جس کے لیے سالوں تیاری اور اتنا انتظار کیا ہے۔۔۔
زید ؛ سر دو ماہ تک آپریشن ختم ہو جائے گا،سر میری نظر میں اے پی ایس کے بچوں کی تصاویر گھومتی ہیں میں بھی دو بچیوں کا باپ ہوں مجھے ایک موقع دیا جائے سر پلیز۔۔۔
سی او سے اپروول ملتے ہیں اگلے تین دن میں زید اپنے 31 ساتھیوں سمیت آپریشنل ایریا پہنچ چکا تھا،زید کی فٹنس اور جنون دیکھتے ہوئے اسے امیجیٹ الفا میں رکھا گیا تھا۔۔۔
تیز فائرنگ، چیخ چنگھاڑ،ہر طرف لگی ہوئی آگ ،گرنیڈ اور لانچر کے دھماکے قیامت سا سماں بنا رہے تھے،واکی ٹاکی گر چکے تھے لاسٹ سنائپر اپڈیٹ کے مطابق ابھی بھی 9 دہشتگرد باقی تھے جو کہ اسی پناہ گاہ میں سے مسلسل مزاحمت کر رہے تھے جس کی بیک سائیڈ پر زید اپنے ایک ساتھی کے ساتھ پہنچ چکا تھا،یہ ایک کھنڈر نما مکان تھا زید اور اسکا ساتھی کھڑکی پھلانگ کر اندر پہنچے راستے میں آنے والے تین کمروں میں پن نکال کر گرنیڈ پھینکے اور بھاگتے ہوئے لاسٹ پر موجود ہال تک پہنچے جہاں پر بقیہ دہشتگرد موجود تھے،وہاں موجود تین دہشتگرد فرنٹ پر موجود الفا ٹو اور تھری پر فائرنگ کر رہے تھے،زید نے دیوار کی آڑ لے کر لانگ برسٹ مارا اور تینوں تڑپ کر گرے دو موقع پر ہلاک اور ایک جسے صرف دو گولیاں لگی تھی اس نے ہاتھ سائیڈ پر کر کے بغل میں لٹکتی ہک کھینچ دی ایک فلک شگاف دھماکہ تھا اور پوری کھنڈر نما عمارت زمین بوس ہو گئی۔۔۔
آہستہ آہستہ اندھیرا چھٹا،وہ ہسپتال میں بستر پر موجود تھا،ہوش آتے ہی سب سے پہلا جو خیال آیا وہ یہی تھا،کیا رننگ چیمپئن شپ گزر تو نہیں گئی،اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں قریب بی پی چیک کرتی نرس سے تاریخ پوچھی
نرس ؛ سر 19اکتوبر
زید ؛ نے بے اختیار ایک طویل اور اطمینان بھرا سانس لیا رگ و پے میں ایک مسرت کی لہر دوڑ گئی کہ ابھی کافی دن باقی تھی آرام سے ڈسچارج ہو سکتا،اپریشن یقیناً کامیاب ہو چکا تھا وہ دھماکے میں شہید ہونے سے بچ گیا تھا اب زید کے سامنے اس کی زندگی بھر کا خواب تھا،گیارہ دن بعد انٹرنیشنل رننگ چیمپئن شپ میں ایک سو چھیانوے (196) ملکوں میں زید پاکستان کی ترجمانی کرنے والا تھا،یہ پرجوش پراعتماد تھا کیونکہ اسے معلوم تھا وہ دی بیسٹ ہے،وہ رننگ کے لیے پیدا ہوا ہے،رننگ میں اسے ہرانا کم از کم کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔
انہیں سوچوں میں ڈوبے ڈوبے اس نے جوش سے لیٹے لیٹے ٹانگ کو کک کرنے کی کوشش کی،لیکن ٹانگیں سن تھی شاید میڈیسن کے زیر اثر تھیں،اس نے ہاتھ لگا کر محسوس کرنا چاہا ٹانگوں کو۔۔۔۔
شلوار کا خالی کپڑا ہاتھ میں آ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
ایک منٹ کے لیے تو بوکھلا گیا،کچھ سمجھ ہی نہ آیا لیکن جیسے ہی صورتحال واضح ہوئی،زید کا سانس رک گیا،چہرہ لٹھے کی طرح سفید ہو گیا،پاوں تلے سے زمین نکل گئی،سرپرآسمان ٹوٹ پڑا،انٹرنیشنل رننگ چیمپئن کی ٹانگیں اس کے وجود کا حصہ نہیں رہیں تھیں ۔۔۔۔!
اس نے جلدی جلدی بے یقینی کے عالم پاگلوں کی طرح ٹانگوں کو ٹٹولا خالی کپڑے کو اچھی طرح مدھولا پورے بیڈ پر پاگلوں کی طرح ہاتھ مارے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی اور دوسرے ہی لمحے دھڑام سے بیڈ سے نیچے آ گرا،کافی چوٹ لگی مگر اس کی پرواہ نہیں تھی جیسے ہی تھوڈا سنبھلا اس کی نظر اپنے جسم کے ساتھ جھولتی شلوار پر پڑی،ایک دلخراش چیخ نکلی اس کے منہ سے ڈاکٹرز اور اس کی بھائی بہن جلدی سے بھاگتے ہوئے اندر داخل ہوئے اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا،بے یقینی اور پاگل پن کی سی کیفیت طاری تھی،،وہ مسلسل ہیجانی کیفیت میں پتہ نہیں کیا کیا بھولے جا رہا تھا،اس کی فیملی اور ڈاکٹرز سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے اسے دلاسہ دے رہے تھے مگر یہ حقیقت تھی کہ بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کو ریپریزنٹ کرنے والے،ناقابل شکست رنر،جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ کھائے بغیر تو رہ سکتا دوڑے بغیر نہیں، لانس نائیک زید عالم دوڑ کا نینشل چیمپن اور گولڈ میڈلسٹ انٹرنیشنل چیمپئن بننے سے چند دن پہلے اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو چکا تھا،اس کے یار دوست بڈیز جو اس کی فٹنس کے گواہ تھے سبھی جمع تھے کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا،کہ ہر وقت دوڑنے والا زید اب کبھی نہیں دوڑے گا،اس نے اپنا جنون،اپنے خواب اپنی برسوں کی محنت اپنی زندگی بھر کی کمائی پاک سر زمین پر نچھاور کر دی تھی،یہاں بہت سی آنکھیں اشکبار تھیں جو زید کے جنون کے گواہ تھے،ان کے آنسو شکوہ کناں تھے کہ خدایا زید کو شہادت کیوں نہ دے دی،کہ اس کی زندگی تو ختم ہو گئی مگر سانسیں چل رہی ہیں۔۔
ماسٹر فہیم(زید کا دوست اور پڑوسی) نے کمبل زید کی ٹانگوں پر دیا اسی وقت موبائل پر نوٹیفیکیشن موصول ہوا اس نے موبائل نکال کر دیکھا،ٹیم سی ڈی سی کے ایک ڈیفینسو کمانڈر کی طرف سے ایک ویڈیو سینڈ کی گئی تھی ساتھ میں ڈسکرپشن تھی پی ٹی ایم اینڈ اے این پی کمبائنڈ پروٹیسٹ۔۔۔!
دروازہ کھلا،میجر ثقلین اندر داخل ہوئے پیچھے دو لڑکوں نے ایک ڈبہ اٹھایا ہوا تھا میجر صاحب آکر زید سے ملے حال احوال پوچھا ڈبے میں سے گرد میں اٹے ہوئے کچھ کاغذات نکال کر زید کے سامنے کیے کچھ باتیں کیں ماتھا چوما اور واپس چلے گئے۔۔۔!
ماسٹر نے ویڈیو پلے کی زور زور کے نعرے لگ رہے تھے،یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے،سامنے ایک لیڈر کھڑا جوش سے تقریر کر رہا تھا یہ پوج نے امارا جینا حرام کیا ہوا ہے،ہمارے علاقے کا امن تباہ کیا ہوا ہے۔۔!
ماسٹر نے ویڈیو دیکھی پاس پڑے زید کو دیکھا اور سوچ میں پڑ گیا کیا زندگی ان جوانوں کی گالیاں کھاتے ہیں،طعنے سنتے ہیں،صبح شام جان مارتے،پھر بھی یہ جوان اس پاک سر زمین پر اس میں بسنے والوں پر اپنے خوشیاں اپنا گھر باہر اپنے بچوں کا باپ،اپنے بیوی کا شوہر،اپنی ماں کا اکلوتا سپوت تو قربان کرتے ہی ہیں ساتھ ساتھ اپنی خواہشات،اپنے خواب،اپنا پیشن،اپنے جینے کے مقصد تک کو وار دیتے ہیں۔۔۔
ماسٹر نے زید کی طرف دیکھا،جس کی آنکھیں بند تھیں آنسو بہہ رہے تھے،ماسٹر پاس بیٹھا اور بولا جانی غم نہ کر۔۔۔
زید؛ آنکھیں کھول کر بڈی یہ غم کے نہیں خوشی کے اور شکر کے آنسو ہیں
ماسٹر؛ حیرت سے زید کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔زید۔۔۔!!
زید ؛ ماسٹر میجر صاحب نے کاغذات جو دکھائے وہ پختونخوا کے 13 بڑے سکولوں میں ایکسپلوژن کا پلان تھا،جو ان 28 دہشت گردوں کا ٹارگٹ تھے،سینکڑوں نہیں ہزاروں ماوں کی گود اجڑنے سے والی تھی، ادھا ملک خون میں نہانے والا تھا،الحمداللہ آپریشن کامیاب رہا۔۔ماسٹر ہم نے نوچ لی وہ غلیظ آنکھیں جو اس خاکی مٹی کو لال کرنے پر تلی تھیں، زید میرا ہاتھ پکڑے کہہ رہا تھا،ماسٹر یار مقصد اتنا بڑا تھا قربانی چھوٹی کیسے ہو سکتی تھی،اللہ پاک نے بہت بڑی قربانی قبول کی ہے میری ماسٹر،، وہ صبر بھی دے گا،پاک سر زمین کی سلامتی کے بدلے جان کی قربانی بہت کم تھی میرے یارا اسی لیے اللہ پاک نے جنون کی قربانی لی ہے،میرے جنون کی قربانی۔۔۔!!
تحریر: ماسٹر محمد فہیم Mohammad Faheem

0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔