تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
منگل، 1 جنوری، 2019

عمران حکومت اور ہمارا رویہ ۔ تحریر ماسٹر محمد فہیم امتیاز



حصہ دوم میں عمران خان کے انتخاب کی وجہ بیان کی تھی لنک
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2305261649731345&id=100007425975910
بات یہ چل رہی تھی کہ موجودہ سیچوئشن میں عمران خان کی حکومت کی طرف اگر لبرل ازم کو فروغ دیا جاتا ہے یا اسلام مخالف سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔۔جس کی کچھ مثالیں بھی بیان کی تو ہم کیا کر سکتے۔۔

پہلی بات تو یہ کہ بغیر تحقیق کسی بھی پراپیگنڈے کا حصہ نہیں بننا (جیسے اسلامیات کے لیئے اقلیتی کوٹے کی خبر،،سینما گھروں کی خبر)وغیرہ وغیرہ اس حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ گزشتہ سے ویسے بھی زیادہ اور جب کنفرم ہو جائے کہ واقعتاً کوئی غیر شرعی کام حکومتی سطح پر کیا جارہا ہے تو اس حوالے سےمثبت اور احسن انداز میں کمپین کی جائے۔۔۔
سوشل میڈیا کی پاور سے آپ میں سے کوئی بھی انکاری نہیں ہوگا،سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے پراپر کمپین چلائی جائے جس میں اس اقدام کو روکنے یا فیصلہ واپس لینے کے لیئے حکومت کو پش کیا جائے۔۔۔
متعلقہ اداروں یا منسٹری کو گراؤنڈ لیول پر اپروچ کر کے مدلل انداز میں انہیں قائل کیا جائے کہ یہ بات اس طرح سے غلط ہے۔۔۔۔
جب بھی کوئی کمپین کریں تو طریقہ کار ایسا رکھیں کے یوتھیئے بھی اس کمپین میں آپکے ساتھ کھڑے ہو،انہیں احساس دلائیں کے بھائی عمران خان بندہ ٹھیک ہے مگر یہ کام شرعی اعتبار سے غلط اور پاکستان کی بنیاد کی نفی کرنے والا ہے لہٰذا اس معاملے پر عمران خان کو مثبت تنقید کے ذریعے ٹریک پر لانا لازمی ہے۔۔۔
کسی بھی صورت میں حکومت یا اداروں کے خلاف بغاوت کی حد تک جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرنا،کسی بھی کمپین یا احتجاج میں ایسا طریقہ کار اختیار نہیں کرنا جس سے وطن عزیز کو،املاک کو،عوام کو نقصان ہو،کوئی بھی غیر آئینی،غیر اخلاقی یا حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والا قدم نہیں اٹھانا۔۔
بنیادی بات یہ کہ لاحاصل کام نہیں کرنا،جس کا کوئی فائدہ نہ ہو جب بھی آپ غلط طریقہ اختیار کریں گے تو نتیجہ غلط ہی نکلے گا،حاصل کچھ بھی نہیں ہونا۔۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ووٹ دے کر کرسی پر بٹھا دینے کے بعد آپ اور میں جو ووٹ دینے سے پہلے تھے وہ نہیں رہے،عوام کی طرف سے جارحیت پر ریاست کی طرف سے جوابی کاروائی ہو گی جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکیں گے۔۔۔لہذا  مثبت نتائج کے لیے لازم ہے کہ اپنے ڈومین رہتے ہوئے درست طریقہ کار سے کام کریں۔۔۔

ایک دو مثالیں سامنے رکھتا ہوں
نیدرلینڈز کے گستاخانہ خاکوں پر ہم نے حکومت کو میلز کی ٹرینڈز لانچ کیے،متعلقہ وزارتوں کو اپروچ کی اپنا مدعا واضح انداز میں سامنے رکھا۔۔نتیجہ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ببانگ دہل اس ایشو پر بات کی گئی۔۔۔
عاطف میاں قادیانی کو لگانے پر خدشات کا اظہار کیا گیا پھر میلز کی گئی ٹرینڈز لانچ کئے گئے علماء کی طرف سے اور عوام کی طرف سے خدشات اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔۔نتیجہ عاطف قادیانی کو ہٹا دیا گیا۔۔۔۔
اور دوسری طرف آسیہ کیس فیصلہ آیا (میں نے پھر کہا تھا عدالتی،آئینی و قانونی اپروچ کریں)مگر دھرنے میں بغاوتی رویہ اختیار کیا گیا،حکومت کے خلاف بغاوت،ججز کے قتل کا فتویٰ،فوج کے خلاف بغاوت  کا فتویٰ توڑ پھوڑ (جس نے بھی کی،اپنوں نے یا دشمنوں نے مگر ماخذ وہ جارحانہ رویہ تھا)
مجھے بتائیں۔۔آسیہ کدھر ہے۔۔؟؟ فیصلے کا کیا بنا۔۔؟؟ تحریک لبیک کدھر ہے۔۔؟؟ خادم رضوی صاحب کدھر ہیں۔۔؟؟پیر افضل قادری کدھر ہے۔۔؟؟
کیا یہ سب باتیں پہلے نہیں بتائیں تھیں میں نے۔۔؟؟

خیر مقصد غلطیوں کو کوسنا نہیں۔۔مقصد اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہے۔۔۔

یہ بات کلیئر ہو گی کہ پاکستان کی اساس نظریہ اسلام کا دفاع کرتے ہوئے احسن انداز اپنائیں گے تو کچھ نہ کچھ حاصل ہو سکتا۔۔اگر غلط طریقہ کار اپنائیں گے جارحانہ رویہ رکھیں گے اصلاحی کے بجائے تنقیدی رویہ رکھیں گے تو حاصل تو کچھ بھی نہیں ہونا۔۔ہم(عوام)میں وہ اتحاد موجود نہیں جو تخت کا تختہ کر سکے اگر یہاں دس لاکھ پٹواری دس لاکھ غیر جانبدار موجود ہیں تو 15 لاکھ یوتھیے بھی ہیں لہٰذا اپنا ہی نقصان کروائیں گے،،حکومت نے چار بندے اٹھا کر اندر ڈالنے تو باقیوں نے نظریاتی پاکستان بھول کر کلمہ پڑھ کر خودی کے مسلمان ہونے پر اکتفا کر لینا اور یہ کام ہم دیکھ چکے ہیں۔۔۔۔!!

اول تو جب ہم حق پر ہوئے اور  اچھے طریقے سے اپروچ کر کے جب کوئی بھی بات سمجھائی جائے گی تو حکومت لازماً اس معاملے پر عوام کی رائے کو مقدم رکھے گی لیکن اگر احسن انداز میں کام کرنے پر بھی بات نہیں بنتی تو بھی جارحانہ رویے  کا فائدہ نہیں کیونکہ اس سے تو بننی ہی نہیں۔۔۔پھر دوسرا راستہ اپنائیں

ایسی قیادت سامنے لائیں جو وطن عزیز میں اللہ تبارک کے احکامات کے مطابق فیصلے کر سکے۔۔۔سیاسی + مذہبی قیادت صرف مذہبی نہیں کیونکہ تحریک لبیک کو ہم دیکھ چکے یہ مذہبی قیادت تو تھی مگر سیاسی نہیں۔۔۔یہ بات آپ کو اور ہمیں ماننی ہو گی کہ۔۔۔
کوئی نیئں قرضہ جدو ہوئے گا دے دیا گہ نئیں تے آیا جے غوری۔۔!!
یہ سارا قرضہ تو میرا ایک مرید اتار دے گا۔۔!!
میرے پاس ہوتا تو میں نیدرلینڈز پر ایٹم بم مار دیتا۔۔۔!!
اور ایسی بہت سی باتوں نے ایک بہت بڑے طبقے کو تحریک لبیک سے دور کر دیا جو اسے پسند کرنے والا تھا جو ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتا  مگر اسے نجانے کیوں یقین ہو گیا کہ تحریک لبیک ملکی معاملات کو چلانے کے قابل نہیں تحریک لبیک میں سنجیدہ قیادت نظر نہیں آئی لوگوں کو جو ملکوں کو قوموں کو لیڈ کرتی ہے۔۔۔کیونکہ پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ عصر حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو جماعت چلے گی وہی کامیاب ہوگی۔۔ایک بھرپور سیاسی جماعت جس پر آپ مطمئن ہوں کہ یہ پاکستان میں دین حق کا نفاذ صحیح معنوں میں کرے گی اسے پروموٹ کریں،زیادہ سے زیادہ کمپین کریں۔۔ایسی سیاسی جماعت جو جذباتی باتیں نہ کرے وہ لوگوں کے سامنے ایک منشور رکھے کہ جی اس طرح سے ہم قرضہ اتاریں گے اس طرح سے ہم نظام چلائیں گے یہ سودی نظام کا متبادل ہو گا۔۔یہ نظام تعلیم ہوگا۔۔جو عوام کو اعتماد میں لے۔۔۔جیسے 22 سالوں سے عمران خان کر رہا جیسے اس نے کرپشن،تبدیلی،اور قانون کی پاسداری کا منشور رکھا عوام کے سامنے اور عوام اس کے ساتھ کھڑی ہوئی۔۔۔یہی کام کرنا ہوگا۔۔ایک سمجھدار دور اندیش اور سیاسی بصیرت کی حامل قیادت سامنے لائیں اسے پروموٹ کریں ہم بھی کریں گے آپ بھی کریں۔۔۔

جو بھی ایسی جماعت نظر آئے جو دنیاوی معاملات کو ساتھ ساتھ چلاتے ہوئے ان پر دینی رنگ کوٹ کرتی جائے اس کو پروموٹ کریں،رابطے کریں ان سے اور انہیں سیاست کے میدان میں پاؤں جمانے کے لیے قائل کریں۔۔جو اپنے فالوورز بنائے عوام کا ایک بڑا طبقہ اپنے ساتھ کھڑا کرے،لوگوں کو یقین دہانی کروائے کی نظریاتی اور فزیکلی دونوں اعتبار سے وہ وطن عزیز کو بلندی کی طرف لے کر جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے جب ن لیگ،پی ٹی ائی اور دیگر جماعتوں سے مایوس عوام آپکی منتخب کردہ جماعت کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو پھر اپوزیشن کو اعتماد میں لے تحریک عدم اعتماد پیش کریں اور دوبارہ انتخابات کروائیں اور ان انتخابات میں اکثریت رائے سے اقتدار میں آئیں جو جو اقدامات گزشتہ حکومت کے سمجھیں کہ ڈی اسلامائز کرنے والے ہیں انہیں کالعدم قرار دیا جائے،قراداد مقاصد میں موجود تمام تر نکات کو ترجیحی بنیادوں پر عملی طور پر نافذ کیا جائے مزید براں مخصوص آئینی ترامیم کر کے شرعی احکامات کے نفاذ کے لیے قانون سازی کی  جائے۔۔۔اس طریقہ کار میں دو سال چار سال یا جتنا بھی عرصہ لگ جائے اس عرصے میں موجودہ حکومت کو مثبت تنقید اور آئینی حدود میں رہ کر پریشرائز کر کے اسلام مخالف اقدامات سے روکا جائے یہی آخری اور بہترین راستہ ہے۔۔۔

نوٹ: یہ دوسرا حل اس صورت میں ہے جب عمران حکومت کی طرف سے عوامی مطالبے کے باوجود اسلام مخالف سرگرمیاں عمل میں لائی جائیں،،غالب گمان ہے کہ عمران خان گزشتہ کی طرح آئندہ بھی عوام کی طرف سے آنے والے جائز و درست مطالبات کو مانے گا اور پاکستان فزیکلی کے ساتھ ساتھ نظریاتی اعتبار سے بھی گروم ہو گا (ان شاءاللہ)۔۔۔
تحریر:#ماسٹر_محمد_فہیم_امتیاز

Master Mohammad Faheem Imtiaz-ماسٹر محمد فہیم امتیاز
Cyber Defence & Combat Team of Pakistan

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

صفحات

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
 
فوٹر کھولیں