کوئی بھی باشعور فرد اپنے دشمن کی طاقت میں اضافہ نہیں چاہتا چہ جائیکہ خود اس میں اضافے کا سبب بنے۔۔۔
ابن آدم کا ازلی دشمن ابلیس لعین جو ہر وقت ہر ممکن کوشش اور حربہ اختیار کیے رہتا کہ انسان کو بہکا کر رحمنٰ کے راستے سے ہٹائے اور شیطان کے راستے پر لے آئے۔۔۔
اس کے لیے وہ انسان کو گناہ کی طرف راغب کرتا ہے۔۔۔انسان اپنی پیدائش سے لے کر بچپن تک معصوم ہوتا ہے اور اسے گناہ پر لگانے کے لیے شیطان کو ایک ایفرٹ پٹ کرنا پڑتی ہے، کسی بھی گناہ کی ابتداء میں شیطان اکیلا ہوتا ہے اور اس کو مزاحمت کا بھی سامنا ہوتا۔۔ تو وہ نسبتاً کمزور ثابت ہوتا ہے۔۔۔لیکن جب یہ گناہ کروا لیتا بندے سے تو پھر اس کی طاقت بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔۔۔کیونکہ یہاں سے نفس کی فیڈنگ شروع ہر جاتی ہے۔۔شیطان نفس کو ٹرینڈ کرنے لگتا۔۔ جتنا زیادہ گناہ میں مبتلا رہیں گے شیطان کے لیے نفس کو ٹرینڈ کرنا آسان ہوتا چلا جائے گا۔۔ہم خود ہی اپنے عمل سے اپنے نفس کی تسکین کر کر کے اسے پال رہے ہوتے ہیں۔۔۔ یہاں تک کہ ۔۔۔یہاں تک کہ یک نہ شد دو شد والا معاملہ ہو جاتا ہے۔۔۔ شیطان ہی کی برابری کا ہمارا ایک اور دشمن ہمارا نفس ہمارے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔۔
یعنی پہلے ایک شیطان تھا۔۔اب اس کے ساتھ ایک نفس بھی شامل ہو گیا(طاقت دوگنی)۔۔۔پھر گناہ کر کر کے کر کر کے اس نفس کو کھلا کھلا کر ہم نے مزید اتنا طاقتور کر دیا کہ اب تو شیطان کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔۔ہمارا نفس ہی کافی ہوتا ہم شیطان کے راستے پر چلانے کے لیے۔۔۔۔
اس کی سب سے بڑی مثال رمضان المبارک کی ہے۔۔!!
رمضان المبارک میں گناہ نہیں ہوتے کیا۔۔؟؟ ڈیفینٹلی ہوتے ہیں۔۔لیکن کیسے۔۔؟؟ شیطان تو قید ہوتا ہے نا۔۔!!
تو شیطان کی غیر موجودگی میں یہ نفس ہوتا جو ہمیں برائی پر لے جاتا۔۔جسے برائی کی عادت ڈال لی ہوتی ہم نے ۔۔ شیطان کو تو اب محنت کی ضرورت بھی نہیں۔۔۔
غرض کہ شیطان (حقیقی دشمن) کی اس بڑھتی طاقت کو روکنے کےلئے انتہائی ضروری ہے کہ گناہ کی طرف پہلا قدم ہی نہ اٹھے۔۔ اور اگر خدانخواستہ اٹھ ہی گیا تو اس کی ابتدائی مراحل میں ہی اس پر قابو پا لیا جائے شروعات میں ہی رحمنٰ کی طرف رجوع کر لیا جائے، یہ نہیں کہ کل چھوڑ دوں گا،پرسوں چھوڑ دوں گا۔۔یہ آخری بار۔۔یا پارشلی یہ سوچنا کہ اتنا کر لیتا ہوں اتنا چھوڑ دوں گا وغیرہ وغیرہ ۔۔اس سب سے نفس کو فیڈ کر رہے ہوتے ہم اپنے دشمن کو کھلا کھلا کر طاقتور کر رہے ہوتے ہم۔۔اور کئی نفس ایسے توانا ہو جاتے وہ پھر ضمیر کو ہمیشگی کی شکست سے دوچار کر دیتے، موت کی سی نیند سلا دیتے۔۔عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے اپنے دشمن کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں دشمن کو پالنا داشمندوں کا وطیرہ نہیں ۔۔۔ابتداء میں ہی فیڈنگ بند کر دیں، جتنی زیادہ دیر ہوتی جائے گی نفس حاوی ہوتا چلا جائے گا۔۔اور خدانخواستہ ایک ایسا مرحلہ آ پہنچتا جب شیطان بے پروا ہو جاتا بندے کی طرف سے،کہ اب بندہ نفس کے زیر تسلط ہی اس کی راہ پر چلنے لگتا۔۔۔بغیر کسی مزاحمت کے چوں چراں کے۔۔۔ہم یہ جنگ ہار جاتے ہیں۔۔ہمارا ازلی دشمن کریہہ دانت نکالتا ہوا ہماری بے بسی پر قہقے لگاتا ہوا نئے شکار کی طرف چل پڑتا ہے۔۔۔۔!!
جاری ہے۔۔۔
#ماسٹرمحمدفہیم
15،دسمبر،2020
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔